یہ کوئی راز نہیں کہ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان شدید تناؤ پیداہوچکا۔حتیٰ کہ ان کے تعلقات میں دراڑ بھی نمودار ہوچکی ہے۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کیا یہ صورت حال حکومت کی تبدیلی کا باعث بنے گی؟ اس کے بعد کس قسم کی حکومت آئے گی؟ کیا موجودہ حکومت 2023 تک چلتی رہے گی یا یہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کا حکم دے دے گی؟ نیزتازہ انتخابات کب کرائے جائیں گے؟ سب سے اہم سوال تو ا بھی پوچھا جانا باقی ہے۔ کیا اگلی منتخب شدہ حکومت ماضی کی طرح غلط طرزِ حکمرانی اور غلط موقع پرست معاشی پالیسیاں جاری رکھے گی؟ یا کیا وہ پاکستان کے معاملات درست کرنے کے لیے انقلابی سیاسی اور معاشی اصلاحات کا راستہ اختیار کرے گی؟
آزادی کے بعد سے پاکستان کو ایک عسکری ”قومی سلامتی کی ریاست” کے طور پر تشکیل دیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ غیر منقسم ہندوستان سے وراثت میں ملی سول ملٹری بیوروکریسی ناتجربہ کار سیاسی جماعتوں اور طبقوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ اور مستحکم تھی۔ بانی پاکستان، محمد علی جناح کی تدبیر اور تدبر سے وجود میں آنے والا پاکستان ان گروہوں کے ہاتھ آگیا۔ اس سول ملٹری بیوروکریسی نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو فروغ دیا اور پروان چڑھایا جس نے سیاسی نمائندگی اور عوامی بہبود پر ”قومی سلامتی” کے دوٹوک تصورات کو فوقیت دی۔ بھارت کے ساتھ چار جنگیں چھیڑ کر ریاست اور معاشرے پر اپنی گرفت قائم کرلی۔ تین بار براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا جب کہ جمہوری حکومتوں کو غیر مستحکم اور کمزور کرنے کا عمل جاری رکھا۔ جب خود مختاری حاصل کرنے کی دھمکی دی تواس نے اپنی لائی ہوئی کٹھ پتلی حکومتوں کو بھی چلتا کردیا۔ اس نے لائسنس، تحفظ اور سبسڈی کے ذریعے منافع خور کاروباری طبقے اور اس سے جڑی زمیندار اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کرکے معاشی اٹھان پر اپنی گرفت جمالی۔ بجٹ کو اپنے بس میں کرلیا۔ اپنے مفادات کو کم کرنے کی ہر عوامی کوشش کو بزوربازو ناکام بنایا۔ واشنگٹن کے ”قومی سلامتی کے مفاد” کے نظریے کو اپنا کر اربوں ڈالر کی امداد اور قرضے حاصل کرکے خود کو امریکہ کو کرائے پر دے دیا۔ ریاست کے اس ڈھانچے اور غیر ملکی قرضوں اور امداد پر گزارہ کرنے کی عادت نے معیشت کو بگاڑ کر معاشرے کو تباہ کر ڈالا۔
اس لیے ریاست کو مفلوج بنائے رکھنے والے عناصر کی اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ عناصر جو ریاست کو قیام کے وقت سے وارثت میں ملے تھے۔ نقطہ آغاز ”قومی سلامتی” کے موجودہ تصورات کو ”قومی طاقت” کے تصورات میں تبدیل کرکے پاکستان کو ایک معمول کی ریاست بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے معاشی طاقت اور سیاسی نمائندگی کو فوجی طاقت اور ہائبرڈ حکومت سازی پر فوقیت دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ ہے۔ ہمیں اس تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچتے دیکھنا چاہیے۔ آزاد اور منصفانہ انتخابات میں عوامی حمایت سے جیتنے والوں کوا قتدار سونپ دیا جائے۔ اور یہ اقتدار حقیقی ہو، محض علامتی نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ دو مزید شرائط کا پورا کیا جانا بھی ضروری ہے۔
پہلی شرط سول ملٹری بیوروکریسی کی ایسی ناکام سیاسی اور معاشی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ ہے جنہوں نے پاکستان کو ایک بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ صورت حال راتوں رات کسی حکم نامے سے تبدیل نہیں ہوجائے گی۔ اس کے لیے عوام کی حمایت سے منتخب اہل اور پرعزم سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ قیادت جو کارکردگی رکھتی ہو۔وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نرمی سے مذاکرات کرتے ہوئے یہ مقصد حاصل کرے۔ اب تک ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ایسے سیاسی راہ نما موجود نہیں تھے یا وہ امور مملکت چلانے سے نابلد تھے، یا سول ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ مناسب طریقے سے مذاکرات کرنے کے قابل نہیں تھے۔ لیکن اب امید کی کچھ گنجائش نکل رہی ہے۔ اس لیے کہ نت نئے تجربات کرنے اور قبضہ کرنے کے آپشن ختم ہو چکے۔ دونوں فریقوں کواپنے تصورات اور اختیارات شیئر کرنا چاہیے۔اہم بات یہ ہے کہ دونوں کو احساس ہونا چاہیے کہ صرف مراعات یافتہ طبقے کو مزید نواز کرملک بحران سے نہیں نکلے گا۔
معاشی اصلاحات کا ایجنڈا وسیع سیاسی اور فلسفیانہ معاہدوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے، اگر کفایت شعاری سے کام لینا ہے تو امیر طبقے کو ایسا کرنا ہوگا۔ جو پہلے ہی بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کررہے ہیں، اُنہیں مزید کس کفایت شعاری کے لیے کہا جائے گا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی اور ترقیاتی بجٹ دونوں عملی طور پر معقول حد کے اندر ہوں۔ سرکاری اور نجی اداروں کے لیے سبسڈیز یا منافع خور عناصر کے لیے خصوصی چھوٹ کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ ایف بی آر میں اصلاحات کر کے عوامی محصولات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ اگر ضرورت ہو تو زیادہ ساکھ اور کارکردگی رکھنے والی غیر ملکی ایجنسیوں کو ٹیکس وصولی کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ نتائج دینے میں ناکام رہنے والوں کی برآمدی مراعات ختم کردی جائیں کیوں کہ ان کے نتیجے میں محض کاروباری اشرافیہ ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔ چینی کی درآمد آزاد کرکے شوگر انڈسٹری کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ امدادی قیمتوں کے بجائے مارکیٹ کو فعال بنایا جائے تا کہ زرعی پیداوار کا تعین امدادی قیمت کی بجائے مارکیٹ میں طلب اور رسد کرے۔زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ کاغذ پر کی گئی تقسیم اور کاشت کاری اور حصے پر کاشت کاری کی اصلاح کرکے جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے تاکہ وسیع وعریض جائیدادوں سے بھاری منافع خوری کا سلسلہ بند ہوسکے۔ خوش حال طبقے میں وارثت کی منتقلی پر بھاری ٹیکس عائد کیا جائے۔ پانچ ہزار روپے کانوٹ ختم کردیا جائے تاکہ نقد رقوم کی ادائیگی کے ذریعے ٹیکس چوری کو روکاجاسکے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے اقدامات ہیں جن پر غور اور عمل کیا جا سکتا ہے۔ محصولات میں تیزی سے اضافہ ہو تاکہ بین الاقوامی قرضے واپس کیے جا سکیں، کرنسی مستحکم ہو، روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور مہنگائی اور غربت میں کمی ہو سکے۔
یقینا ریاست پاکستان پر قبضہ جمائے رکھنے والی سول ملٹری بیوروکریسی اور اشراف سے تعلق رکھنے والے اس کے اتحادیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کی جائے گی۔ لیکن اس راستے پر چلنے کی سنجیدہ کوشش کے بغیر کوئی بھی حکومت ملک کو کینسر کی بیماری سے نکالنے کی امید نہیں کر سکتی۔
دریں اثنا مناسب سماجی ماحول کو شعوری طور پر تشکیل دیا جائے اور اسے فروغ دیا جائے تاکہ اس طرح کے انقلابی اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ ان میں سے سب سے اہم کا تعلق آبادی میں اضافے اور بنیاد پرستی کو کم کرنے سے ہے۔ پہلا معاشی ترقی کے منافع کو کھاتا ہے جبکہ دوسرا سیاسی عمل کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ روکتی ہے اور سیاحت اور مہمان نوازی جیسے عالمی معیشت کے سروس سیکٹر سے فائدہ اٹھانے کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ دنیا میں یہ سروس سیکٹر سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے اسلام کے رکھوالے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرکے اس ضرورت کو سمجھ چکے ہیں۔
خیریہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ لیکن اس کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کو ناکام ہوتی ہوئی ریاست بننے، اور پھسلتی ڈھلوان سے نیچے گرنے سے بچانا ہے تو یہ اصلاحات ناگزیر ہیں۔
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔