Get Alerts

عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور ملک پر منڈلاتے مارشل لا کے سائے

عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور ملک پر منڈلاتے مارشل لا کے سائے
3 نومبر کی شام کو سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ایک حملے میں بال بال بچے۔ حملہ آور نے لانگ مارچ کے دوران ان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں عمران خان کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔ حملے میں ایک شخص ہلاک جب کہ 14 زخمی ہو گئے۔ عمران خان حملے میں محفوظ رہے لیکن اب پاکستان میں جمہوریت کی بقا کو نئے خطرات درپیش ہیں۔

عمران خان پاکستان کے تیسرے سابق وزیر اعظم ہیں جن پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 1951 میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 2007 میں ایک خودکش بمبار کے حملے میں بے نظیر بھٹو جاں بحق ہو گئی تھیں۔ تینوں کو عوامی جلسوں میں نشانہ بنایا گیا، لیکن خوش قسمتی سے عمران خان اس حملے میں معمولی سے زخمی ہوئے ہیں۔

حملے سے پہلے کے چند مہینوں میں عمران خان سیاسی مخالفین کی طرف سے تیار کی گئی سازش کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار خبردار کرتے رہے ہیں کہ انہیں جان سے مارنے کے لئے حملہ کیا جائے گا۔ سیاسی مخالفین نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔ حملے کی بات کو دیکھا جائے تو عمران خان ​اپنے دعوے میں درست ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ اب اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ عمران خان پر حملہ کرنے والے شخص نے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر اپنے طور پر ہی یہ حملہ کیا ہے۔

تاہم اب حملے کے بعد عمران خان نے مکمل طور پر مختلف لوگوں پر الزام لگا کر سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔

فائرنگ کے چند گھنٹوں کے بعد عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اہلکار میجر جنرل فیصل نصیر پر اس حملے کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا۔ عمران خان نے اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

عمران خان کے یہ الزامات دھماکہ خیز ہیں۔ آئی ایس آئی کے حاضر سروس اہلکار کو قتل کی سازش میں نامزد کرنے کا مطلب پوری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم شروع کرنا ہے۔ عمران خان ماضی میں جنرل فیصل نصیر کو بار بار تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور انہیں 'ڈرٹی ہیری' بھی پکارتے رہے ہیں۔ انہوں نے جنرل فیصل پر اپنے دو قریبی ساتھیوں سینیٹر اعظم سواتی اور شہباز گل کو حراست کے دوران تشدد کا نشانہ بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ صحافی ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ عمران خان نے ہی دیا تھا کیونکہ ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں خطرہ تھا۔ 23 اکتوبر کو جب ارشد شریف کو کینیا میں پراسرار طور پر ہلاک کر دیا گیا تو عمران خان ​​نے ایک مرتبہ پھر فوج پر ہی انگلی اٹھائی تھی۔

عمران خان کے فوج پر براہ راست حملوں نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کرنے پر مجبور کر دیا جس میں انہوں نے عمران خان کے ان دعوؤں کو مسترد کیا جن کے مطابق پاک فوج نے مداخلت کر کے عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے یہ بیانات میری رپورٹنگ سے بھی مطابقت رکھتے ہیں جو میں پورا سال کرتا رہا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ عمران خان نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں اس شرط پر توسیع دینے کی پیش کش کی تھی کہ بدلے میں آرمی چیف عمران خان کی حمایت کریں لیکن آرمی چیف نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا۔

یہ سارا منظرنامہ اس بات کی اضافی تصدیق کرتا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ پاکستان میں موجودہ افراتفری اور سیاسی بے یقینی کا مرکز بن چکا ہے۔ آرمی چیف رواں ماہ کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان سے رابطہ کیا تھا۔ عمران خان اس تعیناتی پر شہباز شریف کے ساتھ اتفاق رائے چاہتے تھے لیکن شہباز شریف نے اس معاملے پر عمران خان کے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

عمران خان نے گذشتہ ہفتے دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت نیا آرمی چیف لگانے جا رہی ہے، عمران خان سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے اعلیٰ فوجی قیادت پر حملوں نے ان کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک نے پارٹی کے فوج مخالف بیانیے کے خلاف بغاوت کر دی اور انہیں فوری طور پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں انقلاب آ چکا ہے لیکن حکومت کے خلاف عام لوگوں کے اٹھ کھڑے ہو جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ اس سے ان کے مخالفین کو کہنے کا موقع ملا ہے کہ عمران خان سب کچھ صرف فوجی سربراہ کی تقرری کو ملتوی کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔

عمران خان نے جمعہ کے روز اپنی تقریر میں سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر اپنے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ لیکن انہوں نے پنجاب کی صوبائی حکومت کے کردار کے بارے میں واضح طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو اس لانگ مارچ کے دوران ان کی حفاظت کی ذمہ دار تھی۔ ( عمران خان پر حملہ صوبہ پنجاب میں ہوا، جس کی حکومت ان کی اپنی پارٹی کے پاس ہے۔) سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ حملہ آور کے دعوے عمران خان کے الزامات سے یکسر مختلف ہیں۔

حملہ آور کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اس نے فوراً ایک اعترافی بیان دیا جس میں اس نے کہا کہ وہ مذہبی وجوہات کی بنا پر عمران خان کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ عمران خان کی پارٹی اس بات پر ناراض تھی کہ قاتل کا بیان میڈیا تک کیسے پہنچ گیا۔ صوبائی حکومت نے سکیورٹی میں کوتاہی کے معاملے پر پولیس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اس نے پولیس کی سرزنش صرف اس معاملے پر کی کہ اس نے حملہ آور کا بیان کیوں جاری کر دیا۔ اس کے بعد سے پولیس نے فائرنگ کرنے والے شخص کی مزید ویڈیوز شیئر کی ہیں، جن میں وہ ایک مذہبی تنظیم کا رکن ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ شاید عمران خان کی اپنی صوبائی حکومت میں کوئی ایسا ہے جو ان کے مخالفین کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کام کر رہا ہے۔

ابھی تک ہم پورے سچ سے بہت دور ہیں۔ صرف ایک آزاد عدالتی انکوائری ہی عمران خان کی جان پر حملے کے پس پردہ حالات و واقعات سے پردہ اٹھا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسے وقت میں ایک اور سیاسی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے جب فوری طور پر ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

جمہوریت کے لئے اس حملے کے نتائج تباہ کن ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان پر حملے کے فوراً بعد پورے پاکستان میں احتجاجی ریلیاں شروع ہو گئیں۔ ان کے سپورٹرز فوج مخالف نعرے لگا رہے ہیں اور فوجی ٹینکوں پر اچھل کود کر رہے تھے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بدستور خراب رہتی ہے تو فوج کو 'وسیع تر قومی مفاد' میں ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہونے کا بہانہ مل جائے گا۔ فوج کے اقتدار سنبھالنے کی سرگوشیاں اور افواہیں پہلے ہی ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ عمران خان بھی کچھ دن قبل کہہ چکے ہیں: 'مارشل لا لگتا ہے تو لگ جائے، مجھے فرق نہیں پڑتا'۔

عمران خان چاہے مارشل لا سے نہ ڈرتے ہوں مگر یقیناً میں اس سے خوف زدہ ہوں۔ مارشل لا نے 1971 میں پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے تھے۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ مذاکرات کریں اور اس بحران کا حل نکالیں۔ کسی بھی صورت میں فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔




حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔