جوڑ توڑ کے ماہر سیاسی کردار طاقتور حلقوں کے قابو میں ہیں

چونکہ پاکستان کو چار منقسم سیاسی اکائیوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں کی تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت برسوں کی 'بیرونی' جوڑتوڑ یا اندرونی نااہلی کے باعث مؤثر طریقے سے کم کر دی گئی ہے، اس لیے سیاسی انجینئرنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔

جوڑ توڑ کے ماہر سیاسی کردار طاقتور حلقوں کے قابو میں ہیں

سال تھا 2014 کا۔ موسم گرمی کا، شہر لندن اور جگہ تھی ایجویئر روڈ۔ میرے تمام ساتھی پاکستانی تھے۔ وہ عام پاکستانی نہیں جنہوں نے محض پناہ حاصل کرنے کے لیے کچھ حقائق پر مبنی اور کچھ فرضی سٹوریز دے کر برطانوی دارالحکومت میں جگہ بنائی یا مستقل رہائش کا حق حاصل کرنے کے لیے انتہائی ہنرمند پیشہ ورانہ ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس خاص دوپہر کو میرے ساتھی پاکستانی پارلیمنٹ کے وہ ارکان تھے جنہوں نے صرف 13 ماہ قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر جنوبی پنجاب کے حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انتخابات جیتنا ان کے لیے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ ان کے خاندان کے افراد کئی دہائیوں سے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے رکن رہ چکے تھے۔ مگر یہ لوگ اپنے سیاسی مستقبل اور ن لیگ کی حکومت سے متعلق خاصے فکرمند تھے۔

ان میں سے ایک ساتھی نے مجھ سے پوچھا؛ 'کیا پاکستان میں قبل از وقت انتخابات ہونے جا رہے ہیں؟' اس پر میرا ترنت جواب تھا؛ 'کیا تم مذاق کر رہے ہو یا گھمانے کی کوشش کر رہے ہو؟' پاکستان میں پہلی بار انتقال اقتدار کا مرحلہ 'پرامن' انداز میں سرانجام پایا تھا جب 2013 کی پہلی ششماہی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی تھی۔ مسلم لیگ ن کو 166 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ اپنی 76 سیٹیں ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی 42 نشستوں تک محدود ہو گئی تھی۔ عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف، جس نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسی کے کچھ طاقتور کرداروں کی ظاہری اور خفیہ حمایت کے باوجود محض 35 نشستیں ہی حاصل کر سکی تھی۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن کر نواز شریف نے سیاسی تاریخ رقم کر دی تھی۔ مسلم لیگ ن نے مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنائی تھیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن نے ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔

2014 کے موسم گرما میں نئے انتخابات کے بارے میں کوئی پاگل ہی سوچ سکتا تھا کیونکہ بظاہر نظر آ رہا تھا کہ نواز شریف حکومت کو کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں تھا۔

اپنے نتھنوں سے نیلگوں دھواں خارج کرتے ہوئے میرا رکن اسمبلی ساتھی بولا؛ 'کوئی مشکوک کھچڑی پک رہی ہے سر'۔ میں نے اس سے کہا کہ ذرا لفظ مشکوک کی وضاحت کرے۔ اس کے بعد مجھے جو جواب ملا وہ میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ "کچھ روز قبل چند 'خفیہ ایجنسی والے' ہمارے پاس آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ لوگ نئے انتخابات کی تیاری شروع کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم لوگ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں"۔ میرے رکن پارلیمنٹ ساتھی نے بتایا کہ ان سے کہا گیا کہ اس ملاقات کے بارے میں پارٹی قیادت سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 'انہوں نے کہا کہ الیکشن جیتنے کے بعد ہم لوگ کس پارٹی میں جائیں گے، اس سے متعلق وہ ہمیں بعد میں بتائیں گے۔ تاہم اتنا ہمیں صاف صاف بتا دیا گیا کہ ہم ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑیں'۔

اگلے چند ہفتوں میں سب کچھ باہر آ گیا۔ نواز شریف کے سرکردہ مخالفین ایک اور 'لندن منصوبے' کی تفصیلات طے کرنے کے لیے برطانوی دارالحکومت میں اکٹھے ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے گجرات کے چوہدریوں نے پاکستان عوامی تحریک کے رہنما طاہرالقادری سے ملاقات کی جو کینیڈا سے لندن آئے تھے۔ منصوبے کے باقی کردار پاکستان سے لندن پہنچے تھے۔ یہ ملاقاتیں لندن کے سب سے مہنگے رہائشی اور کمرشل علاقوں ایسٹ لندن، ایجویئر روڈ پر واقع کواڈرینگل اور مےفیئر میں سرانجام پائیں۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے بعض اہم اہلکار بھی ان ملاقاتوں میں شریک ہوئے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ عوامی بے چینی پیدا کر کے اور اسلام آباد میں ایک مستقل دھرنا منظم کر کے نواز شریف حکومت کو گرانا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کی داغ دار سیاسی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ثابت ہوا۔

یہاں سے 2023 میں آتے ہیں؛ پاکستان ایک بار پھر انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران آنے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کے بعد پاکستان کے بعض سرکردہ سیاست دانوں کی سیاسی قسمت پلٹا کھا چکی ہے۔ پاکستانی سیاست میں کسی تیسرے عنصر یا طاقت کو متعارف کرانے کا منصوبہ اپنے بنانے والوں کے ہی گلے پڑ گیا ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے جس شخص کو وہ جبری ریٹائرمنٹ، فوجی بغاوت، ایک ناقص جلاوطنی اور منظم ملک بدری کے ذریعے بے دخل کرنے میں کامیاب رہے، وہ نہ صرف ایک مرتبہ پھر واپس آ چکا ہے بلکہ اسے اگلا ممکنہ وزیر اعظم بھی کہا جا رہا ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے جس شخص کے ساتھ اور اس کے خلاف انہوں نے کام کیا، اس نے اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنوانے کا عہد کیا ہے اس سے پہلے کہ وہ خود سیاسی بھول بھلیوں میں کہیں ڈوب جائے۔

اب جبکہ تینوں بڑے حریف میکیاولی کی طرز کے حربے آزما کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، اصل سیاسی بساط کراچی، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں بچھی ہوئی ہے۔ ایسی سیاسی جماعتیں جو قومی سطح پر کردار نبھانے کی قوت یا ارادے سے عاری ہیں، انہیں صوبائی سطح کی بااثر شخصیات کی حمایت کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ معاملات پر طبقہ اشرافیہ کی گرفت نمایاں ہے۔ اگر کوئی قبائلی ملک، علاقائی سردار یا جاگیردار نہیں ہے، تو پھر طاقت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ڈھیر ساری دولت ہو یا پھر پارلیمنٹ پہنچنے کے لیے اسے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نامزد کیا گیا ہو۔

چونکہ پاکستان کو چار منقسم سیاسی اکائیوں تک محدود کر دیا گیا ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں کی تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت برسوں کی 'بیرونی' جوڑتوڑ یا اندرونی نااہلی کے باعث مؤثر طریقے سے کم کر دی گئی ہے، اس لیے سیاسی انجینئرنگ کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف امیدواروں کی فہرستوں کو حتمی شکل دینے کی تیاری کر رہی ہیں، لیکن چھوٹی جماعتوں کے پاس پس پردہ موجود عناصر سے رہنمائی حاصل کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ اب یہ بالکل واضح نظر آتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا اور اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ فعال حکومتیں بنانے کے لیے اتحادیوں سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اس نتیجے سے متعلق عنوانات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اگر جمہوریت بنیادی طور پر نمبروں کا کھیل ہے تو پھر چار انتخابی اکائیاں یعنی بلوچستان، اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور سندھ مل کر بھی اکیلے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 نشستوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

اگر گذشتہ 30 سالوں سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے تو یہی ہے کہ کسی ایک جماعت کو پنجاب میں کلین سویپ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سیاسی جماعتیں اور سیاست دان مجموعی طور پر ایک مربوط قومی نقطہ نظر پیش کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی سیاست بڑی حد تک ونسٹن چرچل کے اس تبصرے سے بیان کی جا سکتی ہے کہ 'ایک سیاست دان میں پہلے سے یہ بتانے کی صلاحیت ضرور ہونی چاہئیے کہ آنے والے کل، اگلے ہفتے، اگلے مہینے اور اگلے سال کیا ہونے والا ہے؛ اور اس کے بعد یہ بتانے کی صلاحیت بھی ہونی چاہئیے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا'۔

اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں موجود کچھ گھروں میں اس وقت کچھ سرگرمی کی بھنک مل رہی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سیاست دان اس وقت محض اس حالت میں ہیں کہ اتحاد کر لیں یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیں۔ کسی حکومت کو گرانے میں انہیں مشکل پیش آئے گی، جب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو۔ بہت سے دیہی حلقوں میں سیاست دان طاقتور شخصیات کے ساتھ شامل ہونے اور جب تک وہ اقتدار میں رہیں، ان کے ساتھ رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ سکتے۔ انتخابی عمل میں گڑبڑ کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے لیکن سیاسی جوڑتوڑ کرنے والے حلقے ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو اس ملک کے اصل طاقت ور ہیں۔

**

عامر غوری کا یہ تجزیہ The News on Sunday میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے ترجمہ کیا گیا ہے۔

عامر غوری جنگ گروپ سے وابستہ سینیئر صحافی ہیں۔