سندھ دھرتی اور فلسطین کا باہمی ربط دہائیوں تک پھیلا ہوا ہے

فلسطینی طلبہ ہر سال 'یوم فلسطین' مناتے جس میں سندھی لوک فنکارہ زرینہ بلوچ جسے سندھ کی ام کلثوم کہا جاتا ہے، سندھی اور اردو انقلابی گیت اور شاید دو چار عربی گیت بھی گاتیں۔ ان میں فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ نظم 'ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے' عربی دھن پر گایا کرتیں۔

سندھ دھرتی اور فلسطین کا باہمی ربط دہائیوں تک پھیلا ہوا ہے

' سندھ اور فلسطین دو مقامات تعظیم ہیں لیکن لفظ ایک ہے۔' یہ الفاظ سندھی شاعر ابراہیم منشی، جسے کئی لوگ سندھ کا حبیب جالب بھی کہتے ہیں، کے ہیں۔ ان کے ایسا شعر لکھنے سے بھی بہت بہت عرصہ قبل سندھ کی سیاست اور ادب و فن کا دل فلسطین کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔

مجھے یاد ہے جب میں بہت چھوٹا تھا تو میرے شہر کی جامع مسجد کے امام مولوی عبدالغفور کے ہاں ایک جمعہ نماز کے بعد شہر کے لوگ، خاص طور نوجوان اپنا نام فلسطین جا کر لڑنے کیلئے لکھوانے گئے تھے۔ یہ 1973 والی عرب اسرائیل جنگ تھی۔ لیکن اس سے بھی پہلے میں نے 1970 میں اپنے چھوٹے سے شہر میں ایک نوجوان شخص کو اپنے کوٹ پر 'الفتح' کا بِلا (بیج) ہمیشہ لگائے دیکھا تھا۔ اس شخص کا نام شہزادو شاہ تھا۔ شاید اس نے شہر میں فلسطینیوں کے حق میں طلبہ کا جلوس بھی نکلوایا تھا۔

یاسر عرفات اور اس کی تنظیم آزادی فلسطین سے لوگوں کو ایک والہانہ لگاؤ تھا۔ نیز سندھ سمیت پاکستان میں کئی بچوں کے نام یاسر عرفات کے نام پر رکھے گئے ہیں۔

لیکن عرب جدید قوم پرستی کے بانی جمال عبدالناصر سے بھی لوگوں کو عشق تھا۔ میں بہت چھوٹا تھا جب وہ فوت ہوئے تھے اور سندھ سمیت پورا ملک سوگ میں تھا۔ شاید ایسے سوگوار مناظر پھر بھٹو کی پھانسی پر دیکھے گئے کہ لوگوں کو جمال ناصر کی وفات کا دن یاد آ گیا۔ لیکن بھٹو اور ناصر کی وفات میں فرق یہ تھا کہ جمال ناصر طبعی موت مرا تھا جبکہ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا۔ اب تو سبھی اس بات کو مانتے ہیں۔

بھٹو اور یاسر عرفات

بھٹو عرب اور مسلم دنیا میں عربوں اور فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے ان ممالک اور اقوام میں مقبول ہوئے تھے۔

'ہم موشے دایان کی دوسری بھی آنکھ نکال دیں گے'، اب بھٹو نے یہ بڑھک ماری تھی کہ نہیں لیکن 1970 میں ایسے کیلنڈر لاہور سے بھٹو کی تصاویر کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ اور ایک متھ یہ بھی ہے کہ یہ وزیر اعظم بھٹو تھے جنہوں نے عربوں کو ان کے تیل کو عالمی اقتصادی جنگ میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا سکھایا تھا۔ پھر اسلامی سربراہی کانفرنس پر ان چاروں کی تصاویر بڑی مقبول ہوئی تھیں؛ یاسر عرفات، معمر قذافی، شاہ فیصل اور بھٹو۔ لاہور کی بادشاہی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کیلئے ایک ہی صف میں بیٹھے ہوئے۔

یاسر عرفات کی بھٹو سے دوستی عالم آشکار اور ضرب المثل ہے۔ وہ کئی بار بھٹو اور ایک بار بینظیر بھٹو جب وزیر اعظم تھیں، کی ذاتی دعوت پر لاڑکانہ ان کی المرتضیٰ رہائش گاہ پر مہمان بنے تھے۔ مجھے ذوالفقار علی بھٹو کے خاص ملازم عثمان سومرو بالمعروف فلیشمئن نے بتایا تھا کہ المرتضیٰ کے پرائیویٹ رہائش والے حصے میں فقط۔ تین لوگ مہمان رہے تھے؛ غلام مصطفیٰ کھر، شہزادی اشرف پہلوی اور یاسر عرفات۔

یاسر عرفات نے بھٹو کی پھانسی کی سزا معاف کرنے کیلئے فوجی آمر جنرل ضیاء کو اپیل کی تھی جو اس نے مسترد کر دی۔ مسترد تو دنیا بھر کے سربراہان ممالک اور رہنماؤں کی ایسی اپیلیں ضیاء نے کی تھیں، لیکن اس کے بعد جب تک ضیاء الحق اقتدار میں یا زندہ رہا، یاسر عرفات پاکستان نہیں آئے۔ ہاں البتہ تنظیم آزادی فلسطین کے سفارتی مشن اسلام آباد اور کراچی میں کام کرتے رہے۔

افواہیں تو یہ تھیں کہ الفتح کے کمانڈو بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی جیل سے اپنے گوریلا آپریشن کے ذریعے آزاد کروانا چاہتے تھے کہ وہ منصوبہ کسی طرح لیک ہو کر ناکام بنا دیا گیا۔ لیکن خبریں یہ بھی ہیں کہ بھٹو برادران اور ان کی الذوالفقار کی مدد اور لوگوں کی تربیت فلسطینی گوریلا کیمپس میں ہوئی تھی۔

بہرحال 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کو پاکستان کی سیاسی اور فوجی حمایت جس میں شاید پاکستان فضائیہ بھی شامل تھی، مہیا کرنے پر بھٹو عرب دنیا میں عام طور پر اور شام کے عوام اور حکمران حافظ اسد کے سامنے نہایت قابل تکریم ٹھہرا کہ 'علی بتو' کہلایا۔ اس کے پاکستانی ضیاء اور اس کی فوجی جنتا کے زیرعتاب آنے کے وقت شام نے بھٹو کے بیٹوں کو پناہ دے رکھی تھی اور وہاں اس کا بڑا بیٹا مرتضیٰ بھٹو 'ابن علی بوتو' کہلایا۔ دمشق کی گلیوں اور بازاروں میں علی بتو کے اس بیٹے کو لوگ بوسے دیا کرتے، اس سے بغلگیر ہوا کرتے۔ تو بقول شخصے 'یہ ہوا مسلمانوں کے ساتھ'۔

فلسطینی طلبہ اور جامشورو

لیکن عام سندھی طلبہ و طالبات، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور سیاسی لوگوں کا فلسطین سے واسطہ اور لگاؤ تب سے ہوا جب سے ملک کے باقی کئی تعلیمی اداروں کی طرح جامشورو کی سندھ یونیورسٹی، تب انجینیئرنگ کالج اور لیاقت میڈیکل کالج میں بھی فلسطینی طلبہ کے داخلے ہوئے۔ فلسطینی طلبہ بھی دو دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک قسم کے فلسطینی طلبہ کا واسطہ جارج حباش کی پی ایف ایل پی یعنی پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف پیلیسٹائین سے تھا اور دوسری قسم کے فلسطینی طلبہ کا تعلق یاسر عرفات کی پی ایل او یا تنظیم آزادی فلسطین سے تھا۔ ان میں ایک کا ذیلی طلبہ محاذ جنرل کاؤنسل آف پیلسٹینین سٹوڈنٹس کہلاتا تھا۔ ان تنظیموں کے یونٹ جامشورو کیمپسز میں قائم تھے۔ یہ لوگ اپنے اجتماعات اور تقریبات میں سندھی طلبہ تنظیموں کے لیڈروں کو بلاتے اور سندھی طلبہ اپنے اجتماعات اور کنونشن میں فلسطینی طلبہ لیڈروں کو۔ فلسطینی طلبہ ہر سال 'یوم فلسطین' مناتے جس میں سندھی لوک فنکارہ زرینہ بلوچ جسے سندھ کی ام کلثوم کہا جاتا ہے، سندھی اور اردو انقلابی گیت اور شاید دو چار عربی گیت بھی گاتیں۔ ان میں فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ نظم 'ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے' عربی دھن پر گایا کرتیں۔

جامشورو میں کئی فلسطینی طلبہ نے سندھی لڑکیوں سے شادیاں بھی رچائیں۔

1976 میں لبنان میں فلسطینی چھاپہ ماروں اور اسرائیلی افواج کے مابین جنگ کے دوران جامشورو کے کیمپسز میں زیر تعلیم کئی فلسطینی طلبہ اور رہنماؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس لڑائی میں حصہ لینے لبنان گئے تھے۔ جبکہ سندھ کی طلبہ تنظیم کے کارکن فلسطینی گوریلوں کی تصاویر والے کارڈ بیچ کر ان کو فنڈ بھیجا کرتے تھے۔

فلسطین، جنرل ضیاء اور ایم آر ڈی

یہ جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور حکومت میں 1981 کا سال تھا جب لبنان میں ایک بار پھر خانہ جنگی بھڑک اٹھی تھی تو سندھ سمیت پاکستان میں بھی جمہوریت کی بحالی کیلئے اور مارشل لاء مخالف سیاسی رہنما چاہے کارکن حتی کہ پاکستان کی جیلوں کے اندر سیاسی قیدی چاہے عام قیدی، بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ کراچی سمیت بڑے شہروں میں فلسطینیوں کیلئے امدادی کیمپ لگائے گئے تھے۔ کراچی میں جو کیمپ لگائے گئے تھے ان کے کراچی میں پی ایل او کے سفارتی مشن کا نمائندہ بسام عبدالرحمان باقاعدہ دورے کیا کرتا۔ تقریریں کرتا۔ یہ کیمپ زیادہ تر تحریک بحالی جمہوریت یا ایم آر ڈی کی طرف سے قائم کیے گئے تھے۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں کے باوجود فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے نام پر عوام کے ساتھ ایم آر ڈی کا رابطہ بھی قائم رہا اور فلسطین پر تقریریں بھی چلتی رہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت کے بریگیڈیئر ضیاء الحق کے ہاتھوں اردن میں فلسطینیوں کے قتل عام کے حوالے سے ضیاء الحق پر شدید تنقید کی جاتی۔

ادھر سنٹرل جیل میں قید جام ساقی کیس میں جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے جیل سے بیان جاری کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ انہیں لبنان میں فلسطینیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کو بھیجا جائے۔ ان کی طرف سے اس ضمانت کے بعد کہ وہ اگر زندہ بچ گئے تو واپس پاکستان آ کر خود کو حکام کے حوالے کریں گے۔

سندھی قوم پرست اور فلسطین

کئی قوم پرست سندھی تنظیمیں سندھ کے مسئلے کو مسئلہ فلسطین سے تعبیر کرتی ہیں۔ جیے سندھ قومی محاذ کا رہنما بشیر قریشی جس کے کارکن چاہے اکثریتی سندھی عوام اس کی موت کو طبعی نہیں مانتے، ایک دور تک 'سندھ کا ابو جہاد' کہلاتا تھا۔

فلسطین سندھی ادب میں

فلسطین سندھی شاعروں ابراہیم منشی، شیخ ایاز اور عرب وطن پرستی اور بے وطنی حسن درس کی شاعری میں بھی ہے۔ سندھی ادب و اشاعت کے حوالوں سے فلسطینی رہنما لیلا خالد کی خود نوشت سوانح عمری بھی سندھی زبان میں شائع ہوئی ہے۔ محمود درویش سمیت فلسطینی شاعروں اور شامی شاعر نزار قبانی کی شاعری سندھی زبان میں ترجمہ ہو کر چھپی ہے۔