Get Alerts

چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں نہ ہوئی تو آئی سی سی اور بھارت کو بھی نقصان ہو گا

یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان انڈیا کے ساتھ مستقبل میں آئی سی سی کے کسی بھی ایونٹ میں کھیلنے سے انکار کر دیتا ہے تو کرکٹ ماہرین کو توقع ہے کہ آئی سی سی اپنے گھٹنوں پر آ جائے گا، مگر یہ فیصلہ اپنے اندر کئی خدشات بھی رکھتا ہے۔

چیمپیئنز ٹرافی پاکستان میں نہ ہوئی تو آئی سی سی اور بھارت کو بھی نقصان ہو گا

آئی سی سی نے پی سی بی کو ایک خط کے ذریعے بی سی سی آئی کے پاکستان میں نہ آنے کے حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کیساتھ نہ کھیلنے کی وجوہات نہیں بتائیں، جس کی وجہ سے پی سی بی بضد ہے کہ بھارت تحریری طور پر پاکستان آ کر نہ کھیلنے کی وجوہات کا ذکر کرے۔ اس مطالبے سے واضح ہوتا ہے کہ پی سی بی اس مرتبہ آئی سی سی کی سطح پر بڑی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہے۔ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو کسی face-offسے پہلے تمام پہلوؤں اور اثرات کا جائزہ لینا چاہیے، جو پاکستان کے کرکٹ مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

بی سی سی آئی 'بگ تھری' گیم کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے، بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں ویٹو پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئی سی سی کے سالانہ کل 600 ملین ڈالر بجٹ میں انڈیا کا حصہ 38.5 فیصد ہے جس کے بعد انگلش بورڈ اور کرکٹ آسٹریلیا کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان محض 5.75 فیصد شیئر ہی حاصل کر پاتا ہے۔ آئی سی سی نے 8 سالہ فیوچر ٹور پروگرام (FTP) 2031-2024 منظور کر رکھا ہے جس کے مطابق دونوں ممالک آئی سی سی کے ایونٹس میں شرکت کے حوالے سے سائن کر چکے ہیں جس میں تمام براڈکاسٹرز اور کمرشل سپانسرز بھی شامل ہیں۔

آئی سی سی نے جو اکنامک ماڈل منظور کیا ہے، اس کے مطابق سالانہ آمدن کا تخمینہ 600 ملین ڈالر لگایا گیا ہے اور اس میں بی سی سی آئی کا حصہ 38.5 فیصد ہے (جو کرکٹ کے 10 فل ممبر ممالک میں سب بڑا شیئر ہولڈرہے)۔ اس کے بعد انگلش کرکٹ بورڈ 6.89 فیصد، کرکٹ آسٹریلیا 6.25 فیصد اور چوتھے نمبر پر پاکستان آتا ہے جس کا حصہ 5.75 فیصد ہے۔ 600 ملین ڈالر کے بجٹ میں انڈیا کا حصہ اس لیے زیادہ ہے کیونکہ سب سے زیادہ ریونیو 60 فیصد بھارت ہی پیدا کرتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ 60 فیصد پاک بھارت میچوں کی وجہ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

ایک طرف چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد کیلئے براڈکاسٹنگ کمپنی کا آئی سی سی سے چیمپئینز ٹرافی کا شیڈول جلد جاری کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے تو دوسری طرف انڈیا کے 'انکار' کے بعد اگرچہ آئی سی سی اب پہلے تو دونوں کرکٹ بورڈز حکام کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن ناکامی کی صورت میں آئی سی سی کے دیگر دو آپشن بھی موجود ہیں، جس میں ہائبرڈ ماڈل کے تحت چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد، جس میں بھارت کے میچز اور سیمی فائنل، فائنل دبئی میں کروانا شامل ہے۔ لیکن یہاں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آئی سی سی نے ایک تیسرے آپشن پر بھی کام کر رکھا ہے، جس کے تحت چیمپئنز ٹرافی ساؤتھ افریقہ، دبئی اور سری لنکا میں کروائی جا سکتی ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ بگ تھری کو پہلے سے علم تھا کہ اس مرتبہ چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد پاکستان میں کروانا مشکل ہوگا۔ اب یہاں پی سی بی اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ معاملات کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں، بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو متحرک کیا جائے، ویسے بھی وزیر اعظم شہباز شریف کے بھائی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف  SCOاجلاس کے لیے پاکستان آئے بھارتی صحافیوں کے وفد کے ساتھ گفتگو میں خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ بھارت کو پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنی چاہیے۔ نواز شریف کے اس بیان کو بھارتی میڈیا نے خوب کوریج دی، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حصے ابھی بھی تعلقات کی بحالی کیلئے 'کرکٹ ڈپلومیسی' پر یقین رکھتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے بھائی کے پاس ایک نادر موقع ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے کرکٹ ڈپلومیسی کو شروع کریں۔ اس لیے کرکٹ شائقین کو آنے والے دنوں میں کسی بڑے بریک تھرو کی امید رکھنی چاہیے۔

یقیناً انڈیا کے انکار کے بعد پاکستانی شائقین کرکٹ کو بھارتی ٹیم کی چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت نہ کرنے سے مایوسی ہوئی ہے، لیکن پی سی بی اب بی سی سی آئی کے ساتھ ایک نئی جنگ کیلئے تیار نظرآتا ہے۔ پی سی بی تو (جس کی سربراہی سید محسن رضا نقوی کے پاس ہے جو چیئرمین پی سی بی کے علاوہ وزیر داخلہ بھی ہیں) اس حد تک جانے کیلئے تیار ہے کہ اگر انڈیا چیمپئنز ٹرافی کھیلنے پاکستان نہیں آتا تو مائنس بھارت چیمپئینز ٹرافی کا انعقاد پاکستان میں کروا دیا جائے۔ ایسا آئی سی سی کے موجودہ اکنامک ماڈل کے تحت ممکن نہیں۔

 لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی کرکٹ بورڈ کے انکار کے بعد چیمپیئنز ٹرافی کا پاکستان میں انعقاد یقینی ہو پائے گا؟ فرض کر لیتے ہیں کہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 کا انعقاد پاکستان میں ممکن نہیں ہو پاتا تو یہ صورت حال یقیناً پی سی بی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کرکٹ کے مستقبل کیلئے بھی نقصان کا باعث ہو گی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان انڈیا کے ساتھ مستقبل میں آئی سی سی کے کسی بھی ایونٹ میں کھیلنے سے انکار کر دیتا ہے تو کرکٹ ماہرین کو توقع ہے کہ آئی سی سی اپنے گھٹنوں پر آ جائے گا، مگر یہ فیصلہ اپنے اندر کئی خدشات بھی رکھتا ہے۔

پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کا انعقاد اگر نہیں ہوتا تو اس سے پی سی بی کو شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سٹڈیمز کی تعمیر و مرمت پر جو 13 ارب روپے لگا دیے، اتنی کثیر رقم لگانے سے پہلے پی سی بی کو 'ہوم ورک' ضرور کر لینا چاہیے تھا۔ اب اگر چیمپیئنز ٹرافی پاکستان سے باہر جاتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان میں کرکٹ کے مستقبل پر مرتب ہوں گے، جس میں سینٹرل کنٹریکٹ میں مختص رقم میں کٹوتی (جس میں کھلاڑیوں کی فیسیں، انتظامی افسران و ملازمین کی تنخواہیں)، انفراسٹرکچر اور کرکٹ ڈویلپمنٹ پلان متاثر ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سے ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ بھارتی بورڈ کو اس سے کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ ویسے بھی آئی سی سی کو اپنے ایونٹس کا کل 60 فیصد ریونیو بھارت سے ہی حاصل ہوتا ہے اور وہ اس ریونیو کیلئے بھارت کا محتاج ہے۔

آج کی کرکٹ ورلڈ کھیل سے زیادہ پیسے کی گیم ہے۔ وقت ابھی بھی گزرا نہیں، پی سی بی کو اپنی پرانی روش چھوڑ کر سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ چیمپیئنز ٹرافی جیسا بڑا ایونٹ پاکستان کو ایک زبردست موقع فراہم کرے گا کہ وہ عالمی دنیا کو اپنا مثبت امیج دکھا سکے۔ دہائیوں بعد ملے ایسے نادر موقع کو جذباتی فیصلوں کی نذر کر دینا عقل مندی نہیں۔ بھارت صرف حالات کا جائزہ لے رہا ہے، وہ ہوا کا رخ دیکھ رہا ہے، اگر پاکستان کی طرف سے آئی سی سی کو قائل کرنے کی کوششیں کامیاب ہو گئیں تو پھر ممکن ہے پاکستان کے شائقین کرکٹ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں کھیلتے ہوئے دیکھ سکیں۔

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔