یہ بھی پڑھیں:’اداروں کو دائرہ کار میں رہنے کی ہدایت ناگوار گزری‘، جسٹس قاضی فائز کا جواب الجواب
منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا ’اسی صحافی نے جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں، ایسٹ ریکوری یونٹ کو بتایا گیا کہ کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیا گیا۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ وحید ڈوگر نے لندن لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی ایک کاپی فراہم کی ہے اور اسی بنیاد پر آٹھ مئی کو ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک خط لکھا جس میں جج کی جائیداد کی بارے میں ذکر ہے۔ دس مئی کو ایف آئی اے کی ایسٹ ریکوری یونٹ والوں سے میٹنگ ہوئی۔ جس میں درخواست گزار کی اہلیہ کا نام اور اسپین کی شہریت سامنے آئی۔‘
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ شکایت وصولی،ثبوتوں کا اکٹھا کیا جانا اور ریفرنس فائل کرنا مخلتف اوقات میں مرحلہ وار کئے گئے، ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہے اور وفاق نے تاحال اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت بھی نہیں بتائی۔ جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے تمام معلومات فراہم کیں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں جسٹس مقبول باقرنے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وحیدڈوگرکو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ کے یورپین نام کاکیسے علم ہوا؟ہوسکتاہے ڈوگرکے پاس مافوق الفطرت طاقت ہو۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ریکارڈ سے لگتا ہے لندن کا فلیٹ نقد خریدا گیا ہے۔ منیراے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر کی شکایت ایک فلیٹ کے حوالے سے تھی، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے اہلخانہ کی باقی جائیدادیں کون سامنے لایا یہ نہیں بتایا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر نے لندن کی جائیداد کے بارے میں آن لائن سرچ کر کے دستاویز سامنے لانے کا دعویٰ کیا۔ ’ وحید ڈوگر نے الزام لگایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد لندن میں ہے، جو انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ خود کو تحقیقاتی صحافی کہنے والے نے درخواست پر ’عیسیٰ‘ کے ہجے بھی غلط لکھے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل نے اپنی اہلیہ کو کبھی رقم تحفے میں دی، جس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کر کے عدالت کو آگاہ کریں گے، سماعت کے دوران، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدالت کیس میں صرف بنیادی ایشوز پر توجہ مرکوز رکھے گی کرے گی ، درخواستیں زیادہ ہیں وکلا دلائل قانونی نکات تک محدود رکھیں۔
عدالت نے کونسل کی کاروائی کے خلاف نئی آئینی درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔
قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کا مدعی صحافی کون ہے؟
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ’مخبری‘ کرنے والے وحید ڈوگر نے معروف صحافی احمد نورانی پر حملے کے بعد ’لڑکی کے بھائیوں‘ والی خبر شائع کی تھی۔
بعد ازاں انہوں نے ایک وضاحت میں کہا تھا کہ ان کو ’لڑکی کے بھائیوں‘ والی خبر مقامی پولیس کے ایس ایچ او نے دی تھی۔
وحید ڈوگر اسلام آباد میں قائم ایک خبر ایجنسی کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ دونوں ججوں کے خلاف ریفرنسز کی نقول کے مطابق ڈوگر نے وزیر اعظم دفتر کے ایسیٹس ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو 10 اپریل 2019 کو شکایت کی اور اس شکایت کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کو ریفرنس بھیجا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلہ سنانے کے 10 ہفتوں بعد یہ شکایت درج کرائی گئی تھی۔