تاریخی قومی پشتون جرگہ کا انعقاد جمرود میں ہوا، جہاں قبائلی عمائدین اور سیاسی نمائندے اکٹھے ہوئے تاکہ پشتونوں کے مسائل پر بات چیت کی جا سکے اور امن کا قیام کیا جا سکے۔ لیکن یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا اس جرگے کے بعد پشتونوں کے دیرینہ مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا انہیں وہ حقوق ملیں گے جو قیام پاکستان کے بعد سے انہیں نہیں دیے گئے؟ اور کیا یہ یقین دلایا جا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ کسی پرائی جنگ کا ایندھن نہیں بنیں گے؟
یہ بات واضح ہے کہ اس جرگے کے انعقاد کے دوران خیبر پختونخوا کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے ایک ہفتے سے صوبے میں کاروبار بند ہیں، اور جنوبی اضلاع کو ملانے والی سڑکیں، ٹنلز اور غاخی بند ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں گاڑیاں دونوں جانب کھڑی ہیں۔ ان گاڑیوں میں بیمار افراد بھی سوار ہیں جنہیں اسپتال لے جانا ممکن نہیں ہو سکا۔ لوگوں کے ضروری کام رک گئے ہیں اور عوام ذلت اور پریشانی کا شکار ہیں۔ چند ہزار لوگوں کے لیے نکالے گئے 'پختون امن' کے نام پر کروڑوں لوگ رل گئے ہیں، اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ جرگہ عوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوگا یا یہ صرف ایک نمائشی قدم ہے؟
اس جرگے سے نمٹنے کے لئے ایک اور جرگہ گورنر ہاؤس میں منعقد کیا گیا جس میں گورنر، وزیر اعلیٰ، وزیر داخلہ سمیت کئی بڑے عہدیدار شریک ہوئے، لیکن ان کی توجہ کا مرکز عوام کی تکلیف کا حل نہیں تھا۔ بلکہ انہوں نے اپنا جرگہ اس لئے منعقد کیا تاکہ پی ٹی ایم سے نمٹا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈا پور، گورنر فیصل کنڈی اور محسن نقوی نے جرگے کی قیادت کی اور باگ امین گنڈا پور کے ہاتھ میں دی کہ وہ پی ٹی ایم کے اراکین سے بات کریں۔ تین دن کا وقت دیا گیا اور امین گنڈا پور اسی رات ان سے ملاقات کرنے پہنچ گئے، لیکن سڑکوں اور موبائل نیٹ ورک کو بحال کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی، جس سے عوام کو ریلیف مل سکتا تھا۔
یہ صورت حال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ حکومت اس معاملے کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے، جبکہ عوام کی مشکلات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اگر حکومت چاہتی تو عوام کی تکالیف کو بھی زیر غور لایا جا سکتا تھا، لیکن جرگے کا مینڈیٹ صرف سیاسی فائدے اٹھانے کے لیے تھا۔ جو کچھ مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اسلام آباد میں کیا، وہی کچھ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں پی ٹی ایم کے ساتھ کیا۔
دونوں حکومتیں اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ خیبر پختونخوا ایک نو گو ایریا بن چکا ہے، جہاں کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو رہا۔ نہ ترقیاتی منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں، نہ ہی کاروبار بحال ہو رہے ہیں، اور نہ ہی لوگوں کو وہ بنیادی سہولیات مل رہی ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے۔ حکومت کی بوکھلاہٹ اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث یہ خطہ مسلسل مشکلات کا شکار ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس جرگے سے پشتونوں کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا خیبر پختونخوا میں امن اور ترقی کی راہ ہموار ہو جائے گی؟ کیا دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات مشکل نظر آتی ہے کہ یہ جرگے حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل حل کر پائیں گے۔ جب تک حکومتیں عوامی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گی، یہ جرگے محض نمائشی قدم ہی ثابت ہوں گے، اور پشتون علاقوں کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔