جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ان کے تحفظ کیلئے کام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ لوگ بلا روک ٹوک جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں اور محکمہ جنگلات غیر قانونی شکار کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھاتا۔ ان خیالات کا اظہار کیا ہے تربت سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن زاہد حسین دشتی نے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جا رہی ہیں، نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی ہے اور انہیں شکاریوں سے بچانے کیلئے حکومتی ادارے وقتاً فوقتاً اقدامات بھی کرتے ہیں مگر اس کے برعکس نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ ان نایاب پرندوں کا شکار کرنا ظلم ہے۔ ان کی نسل بچانے کیلئے ان کی حفاظت ضروری ہے مگر جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی جتنی ضرورت آج ہے ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا جنگلی جانور نہ صرف ماحول کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ ان سے ماحول اور بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے جنگلی جانوروں کے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے تاکہ ان کی نسل کو ختم ہونے سے بچایا جا سکے۔ اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
جن جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار زیادہ کیا جاتا ہے ان میں چکور ہیسی، بڑا تیتر، تلور، فاختہ، بلیک ہاسٹر، جنگلی کبوتر، دلدلی ہرن، مارخور، جنگلی بکرا اور بھیٹر شامل ہیں۔ آئے روز لوگ جنگلی حیات کا شکار کرتے ہیں اور کوئی روک تھام کرنے والا نہیں ہے۔ شکار کرنے والوں میں اکثر سرکاری ملازم اور علاقے کے اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ محکمہ جنگلات کی حیثیت محض برائے نام ہو کر رہ گئی ہے اور وہ شکار کی روک تھام کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا رہا۔