تحریر: (فاروق طارق) آج 16 اگست 2019 کے روز بھارتی سامراج کے کشمیر پر غاصبانہ سامراجی قبضہ اور عوام کو گھروں میں محصور کیے 13ہواں روز ہے، عید الضحیٰ بھی گھروں میں گزری، تشویش ناک خبریں بتا رہی ہیں کہ خوراک، ادویات اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی کمی بڑھتی جا رہی ہے، کرفیو کو اٹھایا نہیں جا رہا۔
بھارت کی 4 سماجی و سیاسی تنظیموں کے نمائندوں نے 9 اگست سے 13 اگست تک کشمیر کے مختلف علاقوں کا وزٹ کر کے جو دس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ 14 اگست کو دہلی میں انڈیا پریس کلب میں جاری کی ہے وہ اس بھارتی پراپیگنڈا کا منہ توڑ جواب ہے جو ہمیں سب اچھا کی خبریں دیتا ہے۔
کویتا کرشنن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ لیننسٹ (CPIML) کی راہنما ہیں جو اس گروپ میں شامل تھیں، انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پورا کشمیر ایک کھلی جیل کی طرح نظر آرہا ہے۔ اس گروپ کی بنائی دس منٹ کی ویڈیو کو پریس کلب دہلی نے چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ اس میں ایسے منظر تھے جو ان کے نزدیک بھارتی حب الوطنی کے منافی ہیں۔
رپورٹ میں ایک کشمیری کا کمنٹ بھی پڑھنے والا ہے جس میں اس نے کہا کہ وہ منگل سوتر ہی مودی نے توڑ ڈالا ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا تھا، اب ہم آزاد ہیں۔
رپورٹ میں مودی گورنمنٹ کے اس پراپیگنڈا کا بھی جواب دیا گیا ہے کہ 370 اور 35 اے کے خاتمے سے غیر ترقی یافتہ کشمیر میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ وفد نے لکھا کہ کشمیر کے دیہات نارتھ بھارت کے دیہاتوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، کوئی کچا گھر نہیں، تعلیم عام ہے، جن کشمیریوں سے بھی ملے وہ تمام تین چار زبانوں پر اچھی خاصی دسترس رکھتے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ سوائے بھارتی جنتا پارٹی کے کشمیر کے ترجمان کے انہیں ایک بھی ایسا کشمیری نہیں ملا جو مودی حکومت کے موجودہ غاصبانہ قبضہ کے اقدامات کی حمایت کرتا ہو۔
لیکن فوری سوال ہے کہ کیا کیا جائے؟ کہ یہ محاصرہ ختم ہو اور کشمیریوں کو اپنی آواز بلند کرنے اور انہیں بھارتی حکومت کے موجودہ قبضہ بارے اپنی رائے دینے کا موقع مل سکے۔
بھارت کے درجنوں صحافی کشمیر کا سرکاری تحفظ میں وزٹ کر کے یہ خبریں دے رہے ہیں کہ سب اچھا ہے جبکہ بی بی سی، یہ 4 رکنی وفد اور کچھ دیگر بتا رہے ہیں کہ سب اچھا کی خبریں حقائق کے منافی اور درست نہیں ہیں۔ فوری طور پر انسانی تباہی سے بچنے کا سوال سب سے اہم ہے، آزادی بنیادی حق ہے جس سے آئینی حق کے ساتھ ساتھ فزیکلی طور پر کشمیریوں کو محروم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہے؟ بھارتی حکمرانوں نے تو قبضہ اور کشمیر کی تقسیم کر کے بتا دیا ہے کہ اس کے عزائم کیا ہیں؟
پاکستانی ریاست کا موقف ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان، مذہبی تنظیمیں بھی یہی کہتی ہیں اور مذہبی انتہا پسند تو اسے پاکستان بنانے کے لئے متشدد اور دہشت گردی کے مختلف طریقوں سے کام کرتے رہے ہیں۔
ان دو ریاستوں اور مذہبی غیر ریاستی عناصر کے علاوہ بھی ایک نقطہ نظر ہے جسے میڈیا یا تو چھپانے یا اسے توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے وہ ہے کشمیر کی مکمل آزادی، ایک آزاد ملک کی حیثیت میں زندہ رہنے کا حق، اس نقطہ نظر میں اس سے آگے تفصیلات ہیں جو مختلف آزادی پسند گروہوں نے پیش کی ہیں جنہیں یہاں طوالت سے بچنے کے لئے پیش نہیں کیا جا رہا۔
ہم پہلے سوال کا جائزہ لیتے ہیں، کشمیر میں بھارتی سامراجی جارحانہ قبضہ کے خاتمے کا آغاز تو وہاں کرفیو کے خاتمے اور عوام کے باہر آنے سے منسلک ہے۔ بھارت کو اسی فوری قدم کے لئے اسی طور پر مجبور کیا جا سکتا ہے جب بھارتی عوام کی ایک بڑی تعداد کشمیریوں کے ان جمہوری حقوق کے لئے سڑکوں پر آجائے جو کم از کم انہیں دستیاب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں کشمیریوں سے یک جہتی کے لئے عوامی تحریکوں کا ابھار بھارت کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کرفیو ختم کرے اور عوام کو آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔
بھارت میں بائیں بازو نے اس کا آغاز کیا ہوا ہے، ان کے لئے حالیہ انتخابات میں برے نتائج کا مداوہ کرنے کا یہ ایک موقع ہے کہ وہ عوام میں بائیں بازو کے خیالات کو ایک بار پھر مقبول بنا دیں جن میں ہر ظلم سے ٹکرانا اور ظلم کے جواب میں مظلوم کا ساتھ دینا اور ایک کا دکھ سب کا دکھ جیسے جذبات بنیادی ستون ہیں، یہی فریضہ پاکستان کی ترقی پسند قوتوں کا ہے۔
یہ اب اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل اور چین و پاکستان کی ریاستوں کے بس کی بات نہیں، بھارتی سامراج نے اس قدم کے اٹھانے سے قبل خوب تیاری کی ہوئی تھی اور پاکستان میں تو ٹرمپ کے مسکرا کر ہاتھ ملانے کو ورلڈ کپ جیتنے سے تعبیر کر لیا گیا تھا۔
ابھی جو تھوڑے بہت مظاہرے کشمیر کے اندر سے رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں سب سے بلند آواز آزادی کی تھی۔ کشمیر بنے گا خود مختار کا نعرہ ایک دفعہ پھر بہت مقبول نظر آیا۔ ایک دو افراد نے پاکستان کا جھنڈا بھی اٹھایا ہوا تھا اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک بڑے جلوس میں چند افراد پاکستان کا جھنڈا اٹھا کے آ جاتے ہیں جسے پاکستان کا سرکاری کنٹرولڈ میڈیا خوب نشر کرتا ہے۔
ابھی لندن میں 15 اگست کو جو بڑا مظاہرہ ہوا ہے اس میں بھی کشمیر کی آزادی کا نعرہ سب پر فوقیت رکھتا تھا۔
کشمیر ایک قوم کی تعریف پر اترنے والے تمام تقاضے پورا کرتا ہے۔ مختلف نسلوں، ذاتوں، برادریوں، قبیلوں اور مذاہب کے لوگوں کو جو زمین کے ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں ان کی ایک جیسی زبان ایک جیسی ثقافت اور ایک جیسی روایات ہوں۔ انہیں ایک قوم کہا جاتا ہے۔ لغت میں قوم کی اس تعریف پر کشمیری پورا اترتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ وہ تین ملکوں میں تقسیم ہیں۔ پاکستان، چین اور بھارت نے کشمیر کو تقسیم کیا ہوا ہے۔ مگر ملکوں میں تقسیم کشمیری قوم کی تقسیم کے مترادف نہیں ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو بڑا نقصان مذہبی عناصر نے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرہ سے دیا ہے۔ 1980 کی دہائی کے دوران سے لگنے والا یہ نعرہ بھارتی سامراج کو اس تحریک کو کچلنے کا بار بار موقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے قبل مقبول ترین نعرہ کشمیری عوام کے حق خودمختاری کی حمایت اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام کی رائے جاننے کا تھا۔
پاکستانی ریاست کشمیریوں کے لئے کوئی مثالی ریاست اس وقت ہی بن سکتی ہے جب پاکستان کے اندر میڈیا پر قدغن نہ ہو، حقیقی جمہوری آزادیاں ہوں، بات کرنے کی آزادی ہو، وہ نہ ہو جو وزیرستان میں ہو رہا ہے اور عوام خوشحالی کی جانب گامزن ہوں۔ ایک جابر ریاست دوسری قوم کی آزادی کی بات کرتے اچھی نہیں لگتی۔
کشمیر کی آزادی مسلح جدوجہد سے بھی نہیں جڑی ہوئی، بھارتی سامراج کی کشمیریوں پر ظلم وستم کی انتہا بدلے کی آگ سلگاتی رہتی ہے۔ بندوق کا جواب بندوق سے دینے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ مگر تاریخ کا یہ سبق ہے کہ مسلح جدوجہد وقتی فتح سے ہی دوچار کر سکتی ہے، لاکھوں کروڑوں عوام کی عوامی تحریک، جلسے جلوس، دھرنے، ہڑتالیں اور پہیہ جام ہی مضبوط ترین ظالم ریاستوں کو شکست سے دوچار کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
وہ سیاسی عناصر بھی اپنے تجربوں سے یہ تلخ حقیقت جان چکے ہوں گے کہ بھارت کی ریاست کا حصہ رہتے ہوئے کشمیر کاز کو فروغ نہیں دیا جا سکتا ۔ وہ بھارت کے اندر رہتے ہوئے کشمیریوں کے جمہوری حقوق کو حاصل کرنے کی غلط جستجو میں ان سے مکمل تعاون کرتے رہے۔
کشمیر کا حل کشمیریوں کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر سے افواج کو خارج کیا جائے۔ کشمیریوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو کشمیر کے ہر حصہ میں ایک جمہوری ریفرنڈم کا انعقاد کرے اور کشمیریوں سے ہی رائے لی جائے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ بھارت کے ساتھ یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر ایک آزاد کشمیر کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب کشمیر کے ہر جانب ایک بڑی عوامی بغاوت کشمیریوں کو ان کے اپنے مستقبل کو بنانے کا اختیار دینے پر ہر ملک کو مجبور کر دے۔