پی آئی سی دھاوا: مقدمات آئی جی اور وزیرِاعلیٰ پر بھی درج ہونے چاہئیں

پی آئی سی دھاوا: مقدمات آئی جی اور وزیرِاعلیٰ پر بھی درج ہونے چاہئیں
پاکستان متعدد بحرانوں کا شکار ہے۔ اصل اخلاقی بحران تو ہے ہی۔ مگر فکر و دانش کا بحران کسی بحران کے بارے میں صاف ذہنی کو پنپنے نہیں دے رہا۔ آپ کوئی معاملہ چھیڑ دیں، بال کی ایسی کھال ادھیڑی جائے گی کہ جو معاملہ چھیڑا گیا تھا، وہ آنکھ سے اوجھل ہو جائے گا۔

ایسا ہی ایک اہم معاملہ، ذمے داری کے تعین کا مسئلہ ہے۔ یعنی ایک سیدھے سے معاملے کو مسئلہ بنا دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کےجج تک اس پریشان خیالی کے شکار ہیں۔ 2007 میں ’’دا نیشن‘‘ میں جسٹس کے ایم اے صمدانی کا ایک مضمون، ’’بلیم گیم اینڈ رسپانسیبیلیٹی‘‘ شائع ہوا۔

انھوں نے لکھا: ’’ہم اپنی قومی زندگی کی ہر خامی کے لیے اپنے معاشرے کے ایک مخصوص گروہ کو چن لیتے ہیں، اس کو قصوروار قرار دیتے ہیں، اور خود ذمے داری سے دامن چھڑا لیتے ہیں۔ سو مثال کے طور پر یا تو ہم سیاست دانوں، بیوروکریٹوں، ملٹری یا عدلیہ، وغیرہ، پر الزام دھرتے ہیں۔ خود کو کبھی کسی چیز کے لیے ذمے دار نہیں سمجھتے، یہ چیز ہماری قومی زندگی میں سے عنقا ہو چکی ہے۔‘‘

میں نے ان کے اس اندازِ نظر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اخبار کے ایڈیٹر کو خط لکھا: ’’یہ اندازِ فکر معاملات کی تصریح کے بجائے انھیں مزید الجھا دیتا ہے۔ یہ چیز اکثر لوگوں کو پہلے ہی گمراہ کیے ہوئے ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہر کوئی ذمے دار ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ذمے دار نہیں۔ بلاشبہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے لیے ہر شہری ذمے دار نہیں، بلکہ سرکاری اور منتخب عہدے رکھنے والے ذمے دار ہیں۔ ذمے داری کا تعین یوں ممکن ہے کہ جو افراد، سرکاری، یا منتخب عہدے رکھتے ہیں، انھیں اختیار کے ساتھ ساتھ ذمے داری کا حامل بھی بنایا جاتا ہے۔ وہ، جیسا بھی معاملہ ہو، آئینی اور قانونی دونوں اعتبار سے جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہی انداز ہے جس میں ذمے داری کا تعین ہو سکتا ہے۔ مثلاً آئین کا تحفظ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ذمے داری ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے، تو وہ آئینی اعتبار سے آئین کی تحریف و ترمیم کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔‘‘

(تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘)

اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ ’’اگر معاشرے میں قابلِ گرفت جرائم ہو رہے ہیں، اور ان کا تدارک نہیں کیا جاتا، تو اس کے لیے معاشرے کو، یا جرائم کے مرتکب افراد کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جائے گا، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہل کاروں کو ذمے دار قرار دیا جائے گا۔‘‘

(تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’پاکستان میں ریاستی اشرافیہ کا عروج‘‘)

ایک تازہ مثال ملاحظہ کیجیے۔ لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکیلوں کے دھاوے کے بارے میں معروف شخصیت، امجد ثاقب نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’’جنھوں نے کل ہنگامہ کیا وہ مجرم نہیں مجرم یہ معاشرہ ہے والدین بہن بھائی عزیز و اقارب استاد جن کی محبت و تربیت کا یہ نتیجہ ہے یا پھر ریاست اور سیاست کے ادارے جو قانون کی عملداری سے قاصر رہے۔ حیران ہوں کہ دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں۔‘‘

لاہور پی آئی سی دھاوے سے متعلق ایک گروہ اور بھی ہے، جو یہ کہہ رہا ہے کہ وکیلوں نے جو بھی کیا، وہ ڈاکٹروں کے جواب میں کیا۔ تو کیا وکیلوں نے جو کیا، وہ یوں درست قرار پا جائے گا! حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس گروہ میں رضا ربانی جیسی معزز شخصیات شامل ہیں۔

اس نوع کی پریشان خیالی کی توجیہہ یہی کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ محض سماجی اور اخلاقی ذمے داری کی بات کرتے ہیں، انھیں ابھی یہ اطلاع نہیں ملی کی ملکِ پاکستان میں آئین اور قانون دونوں وجود رکھتے ہیں، اور یہ دونوں اگر متعلقہ عہدے داروں اور اہل کاروں کو کچھ اختیارات دیتے ہیں، تو ان اختیارات کے ساتھ ان پر کچھ ذمے داریاں بھی عائد کرتے ہیں۔ ان ذمے داریوں کا تعین کوئی مشکل کام نہیں۔ اور یہ تعین بہر صورت ہونا ضروری ہے۔ 70 برس ہو گئے، ان ذمے داریوں کا تعین نہیں ہوا، اسی لیے ذمے داریوں کے تعین کا مسئلہ پریشان خیالی کا سبب بنا ہوا ہے۔

اب جہاں تک لاہور میں دل کے ہسپتال پر وکلا کے دھاوے کا معاملہ ہے، آئین اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے، درج ذیل افراد اور اداروں پر ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ذمے داری کی ترتیب اور درجے کا تعین مختلف ہو سکتا ہے۔  



تمام کے تمام وکیل جنھوں نے لاہور پی آئی سی پر دھاوا بولا، ان کے جرم کی شدت مختلف ہو سکتی ہے، جس کا تعین تفتیش کے ذریعے ہو گا۔ مگر وہ تمام ذمے دار ہیں۔

پولیس اہلکار جو پی آئی سی کی حفاظت کے لیے وہاں موجود تھے۔

متعلقہ علاقے کا ایس ایچ او۔

ضلع لاہور کے متعلقہ پولیس افسران۔

آئی جی پنجاب۔

صوبے کا وزیرِ داخلہ۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق یہ وزارت، وزیرِاعلیٰ ہی کے پاس ہے۔

صوبے کا منتظمِ اعلیٰ، یعنی وزیرِ اعلیٰ۔ (چونکہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے، لہٰذا، ذمے داریوں کے تعین کے لیے صوبے سے باہر جانا ضروری نہیں۔ ویسے چونکہ مرکز اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے، تو اس سلسلے کو بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔)  

خفیہ معلوماتی (انٹیلی جینس) ایجینسیاں، جن کی ذمے داری تھی کہ دھاوے کے بارے میں وکیلوں کی منصوبہ بندی سے پیشگی آگاہ کرتے (ایک خبر کے مطابق صوبے کی ’’سپیشل برانچ‘‘ نے وکیلوں کے منصوبے سے متعلق پیشگی آگاہ کر دیا تھا۔ مگر دیکھنا یہ ہو گا کہ اس پیشگی اطلاع کی نوعیت کیا تھی۔ پھر یہ کہ جن متعلقہ افسران کو یہ پیشگی اطلاع دی گئی، کیا انھوں نے دھاوے کے تدارک کے لیے پیشگی اقدمات کیے یا نہیں، اور جو اقدامات کیے گئے، تو کیا وہ اقدامات کافی تھے یا ناکافی۔ اور اگر ناکافی تھے، تو اس کی زمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔)۔

چونکہ ایک واقعہ ہوا، جو قانون کی رو سے قابلِ گرفت ہے، تو یہ ایک ابتدائی فہرست بنتی ہے کہ کون کون قابلِ گرفت ہے۔ اس میں ایک طرف وہ افراد ہیں، جنھوں نے جرم / جرائم کا ارتکاب کیا۔ یعنی جنھوں نے پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا؛ اور ڈاکٹروں، مریضوں، اور ان کے عزیز و اقارب کو نقصان پہنچایا۔ جیسا کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نتیجتاً چند مریضوں کی موت واقع ہوئی۔ لہٰذا، اس چیز کا تعین بھی ہونا ہے کہ ان اموات کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔

دوسری طرف وہ افراد اور ادارے ہیں، جنھوں نے ہسپتال، یعنی پبلک پراپرٹی، ڈاکٹروں، ہسپتال کے ملازموں، مریضوں، اور ان کے عزیز و اقارب کا تحفظ نہیں کیا اور اپنے فرائض میں کوتاہی برتی۔

ان سب افراد اور اداروں (یعنی اداروں کے سربراہان) پر مقدمات درج ہونے چاہییں۔ قانون اور تفتیش کے تمام مراحل اور تقاضے پورے ہونے چاہیئں۔ اور ان تمام کے ضمن میں ذمے داری کی تعین اور تقسیم ہونی چاہیے۔

اول، مرتکب افراد کے ضمن میں، جرم، اس کی نوعیت اور شدت کا تعین ہونا چاہیے، اور قانون میں دستیاب زیادہ سے زیادہ سزا دی جانی چاہیے۔

دوم، پی آئی سی پر متعین گارڈ، متعلقہ تھانے کے افسران، پولیس کے ضلعی افسران، آئی جی پنجاب، اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے متعلقہ افسران، ان سب کے ضمن میں جرم، جرم کی نوعیت اور شدت، کا تعین ہونا چاہیے، اور انھیں قانون میں دستیاب زیادہ سے زیادہ سزا دی جانی چاہیے۔

سوم، صوبے کے وزیرِ داخلہ (یعنی وزیرِ اعلیٰ)، اور صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کے ضمن میں بھی جرم، اس کی نوعیت اور شدت کا تعین ہونا چاہیے اور انھیں قانون میں دستیاب زیادہ سے زیادہ سزا دی جانی چاہیے۔  



اگر قانون اپنا یہ کام پوری طرح نہیں کرتا، تو اس کا مطلب یہ ہے ریاست کے پاس لوگوں سے ٹیکس لینے کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ ریاست کو قائم ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اپنے اولین فریضے کے طور پر شہریوں کو ان کی جان اور مال کا تحفظ مہیا کرے۔ جبکہ یہاں لاہور میں دل کے ہسپتال کے معاملے میں ریاست مریضوں اور ان کے عزیز و اقارب کو بھی تحفظ مہیا نہیں کر سکی۔

اگر ریاست چاہتی ہے کہ لوگوں سے ٹیکس لینے کا اس کا جواز قائم رہے، تو اس کے لیے یہ امر ناگزیر ہے کہ یہ لاہور پی آئی سی دھاوے کے ضمن میں ’’انصاف‘‘ کی دستیابی کو یقینی بنائے۔

انصاف کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے دو تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ اس ’’جرم‘‘ کے مرتکب ہونے والوں میں دو قسم کے افراد شامل ہیں، اوپر جن کی نشان دہی کی گئی۔

پہلے وہ جو لاہور پی آئی سی پر دھاوے کے مرتکب ہوئے اور دوسرے وہ ریاستی افسران و عہدے داران، جو افراد اور ہسپتال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔

سزا کے علاوہ، جرائم، ان کی نوعیت اور شدت کے حساب سے ان سب پر ہرجانہ بھی عائد کیا جائے۔ اسی ہرجانے سے مرنے اور زخمی ہونے والے افراد کو ادائیگی کی جائے اور پی آئی سی کا نقصان بھی پورا کیا جائے۔

مگر جیسا کہ ایک خبر کے مطابق مرنے والوں کے لواحقین کو پنجاب حکومت نے ایک مخصوص رقم کی ادائیگی کا اعلان کیا ہے، مگر یہ ادائیگی تو شہریوں کے ٹیکس کے پیسے سے ہی کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ پھر مرتکب افراد کو کیا سزا ملی۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اصل میں اتنے بڑے جرم کی ’’سزا‘‘ دونوں صورتوں میں شہریوں کو بھگتنا پڑی!

اسی لیے یہ ضروری ہے کہ دھاوے کے مرتکب افراد اور آئی جی پنجاب سمیت پولیس کے تمام افسران کو سزا کے ساتھ ساتھ ہرجانہ بھی کیا جائے، جسے وہ اپنی جیب سے ادا کرنے کے پابند ہوں۔ اسی طرح، صوبے کے وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعلیٰ کو بھی ان کے جرم / جرائم کے حساب سے ہرجانہ کیا جائے، جس کی ادئیگی وہ لوگوں کے ٹیکس کے پیسے سے نہیں، بلکہ اپنی جیب سے کریں گے۔

پاکستان میں ریاست کو جواب دہ بنانے کے لیے یہ کام ضروری ہے۔ قانون میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ غیرقانونی اغوا کے ایک مقدمے میں یہی طریقِ کار اختیار کر چکی ہے۔ لہٰذا، اس انداز میں جرم کا تعین کرنے اور پھر سزا اور ہرجانہ عائد کرنے سے، آئندہ کے لیے ایک مثال قائم ہو گی، اور ریاستی و حکومتی اربابِ اختیار شہریوں کو تحفظ دینے کے اپنے اولین فریضے سے غفلت برتنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔