جسٹس ایلوین رابرٹ کارنیلیس پاکستانی عدلیہ کی ابتدائی سُنہری تاریخ کا حصہ ہیں۔ آلہ آباد یونیورسٹی اور کیمبرج کے تعلیم یافتہ جسٹس کارنیلیس نے زندگی تنہا یعنی سنگل لائف کے طور پر گزاری اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لاہور کے تاریخی "فلیٹیز" ہوٹل کے ایک کمرے میں سکونت پذیر رہے۔ نئی ریاست پاکستان کے اس چوتھے چیف جسٹس سے پہلے تاریخی لاہور ہائیکورٹ 9 گورے چیف جسٹسوں کے علاوہ سر شادی لال (بطور آٹھویں) اور پھر گیارہویں چیف جسٹس سرعبدالرشید جیسی قدآور قانون دان شخصیات کو اپنا سربراہ رکھنے کا اعزاز رکھتی تھی۔ جبکہ اس کے بعد جسٹس رستم کیانی، جسٹس منظور قادر، جسٹس سردار اقبال، جسٹس اسلم ریاض حسین اور فرزند اقبال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال جیسی نامور شخصیات کو چیف جسٹس رکھنے سے سرفراز رہی۔
البتہ 1989 سے 1991 تک جسٹس رفیق تارڑ جیسے جج بطور چیف جسٹس اس کے حصے میں آئے۔ جسٹس کارنیلیس 21 دسمبر 1991 تک حیات رہے۔
ایک روز لاہور ہائیکورٹ کے کچھ وکلا ان سے ملنے اور مزاج پرسی کے لئے ان کے پاس گئے۔ فلیٹیز ہوٹل میں ان کے کمرے میں دوران گفتگو جسٹس کارنیلیس نے ان سے پوچھا "آج کل ہائیکورٹ میں کون کون جج ہیں؟" جواب میں انہیں ابھی چند نام ہی بتائے گئے تھے کہ فلاں فلاں تارڑ، فلاں فلاں چدھڑ، فلاں فلاں ڈوگر، تو جسٹس کارنیلیس نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بے ساختہ کہا کہ ہمارے وقت میں تو ایسے نام ایف آئی آر میں ہوتے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نامور شاعر احمد فراز سے ایک انٹرویو کے دوران معاشرے کی انحطاط پذیری کا ذکر ہوا تو احمد فراز نے کہا سوسائٹی کے ہر طبقے میں انحطاط پذیری کا آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ کل جس کرسی پر قائد اعظم بیٹھے تھے، آج اس پر چوہدری شجاعت حسین بیٹھے ہیں۔
ملک میں قاف لیگ کی حکومت تھی جس کے صدر چوہدری شجاعت حسین احمد فراز کے بیان پر اس قدر نالاں ہوئے کہ احمد فراز کو ایک بار پھر پی ٹی وی سمیت تمام سرکاری ذرائع ابلاغ پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ صرف انہیں اکادمی ادبیات، پاکستان کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا بلکہ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ہاؤسنگ کے وفاقی وزیر صفوان اللہ کے ایک خصوصی حکم کے تحت ان سے سرکاری گھر فوری خالی کرانے کے لئے ان کا سامان سڑک پر پھینکوا دیا گیا۔
ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کے آخری مہینوں یعنی ان کے خلاف چلائی یا چلوائی جانے والی دائیں بازو کی ملک گیر احتجاجی تحریک کے دوران معاشرہ لگ بھگ اتنی ہی شدت سے 2 حصوں میں بٹ چکا تھا جتنا کہ عمران خان کی گذشتہ دور کی دھرنا تحریک اور بالخصوص ان کی حکومت آنے کے بعد تقسیم ہوا ہے۔
ملکی سیاست کے میدان میں ایک نیا لیڈر وارد ہوا، ملک کے روایتی سیاسی کلچر میں انقلاب برپا کر دینے والا لیڈر، کرکٹ ہیرو عمران خان سامنے آیا۔ پھر چشم فلک نے ایک نیا منظر دیکھا کہ لاہور کے موچی دروازے، پنڈی کے لیاقت باغ اور کراچی کے نشتر پارک میں برپا ہونے والے جلسوں کے سنجیدہ ماحول کی جگہ انٹرٹینمنٹ گیٹ ٹو گیدر نے لے لی اور حاضرین و ناظرین یعنی ٹی وی پر جلسہ سننے والے درشکوں کے منورنجن کا سامان بھی موجود تھا۔
بات یہیں پہ نہیں رکی بلکہ 2014 کے دوران جب اس نئے سیاسی کلچر کو تیزی سے پروان چڑھایا جا رہا تھا۔ نئی سیاسی روایات کا بانی یہ نیا سیاسی کردار، بظاہر تو پڑھے لکھے معاشروں کی سیاسی، سماجی و ثقافتی اقدار کا پرچار کر رہا تھا اور بیک وقت نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد اور باراک اوباما جیسے مہذب سیاست کاروں کی شخصیات سے مُتاثر تھا لیکن عملاً اس نے دیسی سیاسی کلچر میں منتخب اور وقت کے وزیراعظم کو اوئے نوازشریف کہہ کے پکارنے کا آغاز کیا۔ اپنے مخالف بزرگ سیاست دانوں کے تضحیک آمیز نام رکھے، عوامی اجتماعات میں ان کا تمسخر اُڑایا اور جگتیں لگانے کا وطیرہ اپنایا۔
دوسری طرف روایتی سیاستدانوں نے جواب میں زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ آصف زرداری نے اس نووارد کو 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے فوجی کمانڈر جنرل امیر عبداللہ نیازی کی مناسبت سے عمران نیازی کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اپنے خلاف بدتمیزی کے ردعمل میں محض اس حد تک گئے کہ چکوال یا جہلم میں تیل دریافت ہونے کی تقریب سے اور بعد میں اوکاڑہ کے ایک عام جلسے سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ کہتا ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دے، میں تمہارے کہنے پر استعفیٰ دے دوں؟ یہ منہ اور مسور کی دال۔
پھر کپتان کے ایک کھلاڑی نعیم الحق نے ٹی وی کے لائیو شو میں برسراقتدار جماعت کے ایک وزیر دانیال کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا، کچھ عرصہ بعد کراچی میں بھی ایک اور لائیو ٹی وی ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے ایک مقامی رہنما نے کرسی سے اٹھ کر صحافی امتیاز فاران پر حملہ کر دیا۔ یہ اطلاعات عام ہونے لگیں کہ کپتان اپنی بیٹھکوں میں اپنے تشدد پسند کھلاڑیوں کی ایسی حرکتوں پر پسندیدگی ظاہر کرتا ہے اور اُنہیں سراہتا ہے۔
کپتان کو اقتدار مل جانے کے بعد دیکھنے میں آیا کہ وزیراعظم نے نہ صرف درجن بھر افراد کو حکومتی ترجمان مقرر کر دیا بلکہ یہ پہلی حکومت ہے جس میں وزیراعظم کابینہ سے زیادہ حکومتی ترجمانوں کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایسی حرکتوں پر ترجمانوں کو اکسایا بھی جاتا بھی ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ مخالفین کے خلاف اب کیا الفاظ اور کیسی زبان استعمال کرنی ہے۔
معاشرے میں تیزی سے بڑھتے عدم برداشت، شدت پسندی اور تشدد کے رجحان نے بالآخر 11 دسمبر کو کالا کوٹ پہن کر لاہور کے سب سے بڑے ہسپتال پر یلغار کر دی۔ کاش، فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے بنچ کے تاریخی فیصلے کو ریاست نے قبول کر کے، فیصلے میں دیے گئے احکامات کی تعمیل کی ہوتی تو آج جتھہ بندی اور لشکر کشی کے اس شرمناک اور افسوسناک ترین سانحہ کی صورت میں لاہور جیسے میٹروپولیٹن سٹی میں دن دیہاڑے طالبان کی واپسی کا عبرتناک منظر دیکھنے کو نہ ملتا۔