مجھے وہ لکڑی پر لگےتازہ رندے کے بُورے پر پڑتی بارش کی خوشبو آج بھی یاد ہے جو پھر تھوڑے دنوں بعد کرنافلی اور برہم پترا میں بہائے انسانی خون میں بدل گئی تھی۔
یہ 1971 کا زمانہ تھا جب میں دس سال کا بچہ تھا اور میری راہ و رسم اپنے گھر کے سامنے والی مسجد کے نمازیوں میں سے چند فارغ الوقت بڑے بوڑھوں سے ہو گئی تھی۔ یہ بوڑھے قریب ہی یار محمد کارپینٹر کی دکان پر جمع ہوتے اور سیاست و حالات پر اپنے اپنے ’چینل‘ چلاتے اور اپنے اپنے سینہ گزٹ ایک دوسرے کے سامنے کھولتے۔ وہ پہروں بولتے رہتے اور میں ان کو سنتا رہتا۔
وہ ایک دوسرے سے لڑتے بھی رہتے۔ اکثر اس بات پر کہ ’محمد‘ نور ہے کہ بشر، نماز ہاتھ سینے پر باندھ کر پڑھنی چاہیے کہ ناف پر رکھ کر، سورہ فاتحہ کے آخر میں ’والدّالین‘ کہنا چاہیے یا ’ولزّوالین‘۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ خاکی فوجی قمیض اور تہبند میں ملبوس سرائیکی دیس ڈیرہ غازی خان سے آیا ہوا یار محمد جو دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر لڑ چکا تھا، اب لکڑی سے کئی چیزیں بنایا کرتا۔ ہوائی جہازوں کے رنگین ماڈل، شبِ عروسی کے پلنگ، میت کے خاتن اور قرآن کے رحل۔ وہ اپنی تہبند میں بندھی نسوار کی ڈبیہ نکال کر منہ میں ’بیڑھا‘ ڈالتا، اپنی ہتھیلوں میں تھوک لگاتا اور پھر اپنے رندے، آرے، ہتھوڑی اور دیگر اوزاروں میں گم ہو جاتا۔
یار محمد کی دکان ایک طرح کا چھوٹا سا ہائیڈ پارک تھی، ایک چھوٹی سی خبر رساں ایجنسی! گویا کہ ایک چھوٹی سی دنیا۔ اس چھوٹی سی دنیا میں بھٹو کا شیدائی ریٹائرڈ پوسٹ مین محمد بچل بھی تھا تو کٹر دیوبندی نابینا حافظِ قرآن نذیر احمد بھی۔ نابیناحافظ نذیر احمد کے لیے لوگ کہتے کہ اس میں اندر کی روشنی ہے وہ نہ دیکھتے ہوئے بھی ٹرانسسٹر ریڈیو پر بی بی سی اور آل انڈیا ریڈیو سٹیشن لگا لیتا۔ آپ اسے صرف ایک بار ملیں اور پھر بیس پچیس برس بعد ملیں پھر بھی آپ کے بغیر علیک سلیک کئے وہ آپ کے ہاتھ ملانے پر ہاتھ کے لمس سے پہچان لے گا کہ آپ کون ہیں۔
یار محمد کی اس دکانِ درد کے کلب کا میں ایک اعزازی اور سب سے کم عمر ممبر تھا۔ ہم سب ’پھول محمد نیوز پیپر ایجنٹ‘ کی دکان پر مفت میں اخبارات پڑھتے اور پھر شہر کے دیگر اخبار بین ہمیں روک کر اپنی پڑھی اور سنی ہوئی خبروں پر ہمارا تبصرہ پوچھتے۔
یہ میری گلی کے لوگ تھے: ’ناک کٹی اسلامی‘ ایک نو مسلم ہندو عورت تھی جس نے ایک مسلمان سے شادی کی تھی لیکن پھر اس مسلمان نے غیرت میں آ کر اس کی ناک کاٹ ڈالی تب سے وہ ’ناک کٹی اسلامی‘ کہلائی۔ پکے راگ جیسی گالیاں دیتے ہوئے بچوں کا کنڈر گارٹن، کونجوں کی ڈار جیسے حسین ہندو لڑکے، چھوٹی قامت کا ہوٹل کا وہ بیرا بھی جسے لوگ شاستری کے نام سے یاد کرتے اور جس نے اپنا منہ کالا کروانا اور جوتوں کا ہار پہن کر اپنا جلوس نکلوانا رضاکارانہ طور پر قبول کیا کہ لوگوں کا خیال تھا کہ اسکی شکل ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے ملتی ہے۔ میں نے سنا کہ یہ سن انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے دنوں میں ہوا۔
لیکن سیاسی بڑوں کے کلب میں۔ جہاں اب وہ مجھے میرے گھر کے پیار کے نام سے یاد کرتے وہاں اب مجھے مزاقاً ’مجیب الرحمٰن غدار‘ کہنے لگے۔ تب میں نے تین اور الفاظ بھی پہلی مرتبہ سنے۔ نام نہاد، کالعدم اور غدار۔ نام نہاد بنگلہ دیش، کالعدم عوامی لیگ، اور ’غدار بنگالی اور ان کا لیڈر مجیب الرحمٰن‘۔
میرا شہر پاک انڈیا کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے وہاں ایک استقبالیہ کیمپ قائم کیا جو قومی نغموں اور اللہ اکبر کے نعروں سے گونجتا رہتا۔ وہاں محاذ جنگ پر جانے والی فوجی گاڑیوں کے کاروانوں کو پلاؤ کی دیگیں، چنے اور گڑ کی تھیلیاں اور پھولوں کے ہار پیش کرتے۔ احمد فراز کے یہ شعر میں نے بہت برس بعد سنے۔
سرحدوں پر کبھی جب میری رن پڑا
آنسوؤں سے تمہیں الواداعیں کِہیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
نذر تم کو کیا مجھ سے جو بن پڑا
لیکن اس استقبالیہ کیمپ کے نذرانے اور ترانے اس وقت خاموش ہو جاتے جب وہاں سے بنگالی پاکستانی فوجی گزرتے۔ وہ قافلے خاموش گزر جاتے بغیر استقبال اور گرم جوشیوں کے، ان سرگوشیوں کے بیچ کہ بنگالی غدار ہیں، یہ فوجی بھی غدار ہیں ’دشمن‘ سے ملے ہوئے ہیں۔ میں نے سنا کہ چاول کی بچی ہوئی دیگیں بھی لوگوں نے سرحد کی ریت میں دفن کرلیں جب یہ سنا کہ اس یونٹ کا میجر اور سپاہی بنگالی ہیں۔
’ جھوٹ بولدی ہے جھوٹیے آکاش وانیئے، ’بیکار بکواس کمپنی (بی بی سی)، لوگ ناپسندیدہ خبریں سن کر کہتے۔
ہرے لباس میں نورانی چہرے والا بزرگ سکھر والے پل پر سے ہندوستانی طیاروں کے گرائے جانے والے بم ہاتھ میں پکڑتے اور نگلتے سب کو دیکھائی دیتا۔ میرے ہندو ہمسایوں کو اپنے گھروں میں سے ’وائرلیس سیٹ رکھنے‘ اور ’راتوں کو ہندوستانی طیاروں کو چندا بیٹری سیلوں کی ٹارچیں دکھانے کے الزام میں فوج گرفتار کر لیتی۔ اب میرے محلے کی مسجد میں اگر کوئی مسافر یا فقیر شب بسری کو آتا تو اسے جاسوس ہونے کے شبہے میں ننگا کر کے تسلی کی جاتی کہ یہ جاسوس نہیں۔ کبھی کبھی اس کا ختنہ بھی شک کا فائدہ نہیں دیتا اگر اس کا رنگ گہرا سانولا اور خود پست قامت ہوتا۔
’امار گھورے رینا
تمار گھورے باتی
امار گھورے کرشنا
تمار گھورے جل‘
(ہمارے گھر اندھیری راتیں ہیں اور تمہارے گھر پر روشنی ہے، ہمارے گھر پیاس ہے اور تمہارے گھر پانی)۔ ایک بنگالی لوک گیت کی سطریں ہیں۔ ایک بنگالی لوک گیت میں سکھر بیراج اور جہلم کے پانی کا قصیدہ ہے۔ ایسے لوگ گیتوں جیسے سینہ چاکانِ مشرق کو ہماری فوج عرض پاک نے اپنے ٹینکوں تلے روند ڈالا۔ (ہم اسے سقوط ڈھاکہ کہتے ہیں۔) ان کو قتل کرنے کی ایسی عادت تھی جیسے کسی کو شراب یا سگریٹ کی عادت ہوتی ہے، صحافی رابرٹ ہائن نے سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل عام اور زنا بالجبر کے احوال پر مبنی کتاب میں لکھا ہے۔ حمود الرحمٰن کمشن کی رپورٹ میں ایک جگہ لکھا ہے۔
کتابوں اور ’واٹر للی‘ سے شغف رکھنے والے ایک چالیس سالہ کرنل نے سب سے’ کم جرم کئے‘ کہ اس نے صرف بنگالیوں کے گھروں کو آگ لگائی۔ غالباً یہ کرنل بعد میں پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف بھی بنے۔ سندھ میں مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر اور گورنر بننے والے ایک اور جنرل نے نیشنل بنک آف پاکستان کی ایک شاخ کو اپنے ہاتھوں سے لوٹا۔
کیا یہ انسانیت کے خلاف ہونے والے جنگی اور غیر جنگی جرم فقط خون کے دھبے ہیں جو بارشوں سے دھوئےجا سکتے ہیں؟
یا غلطی کا اعتراف کرنے سے کیا ماضی فراموش کیا جا سکتا ہے؟ یا حمودالرحمن کمشن رپورٹ شائع کیے جانے سے؟
بہت برس بعد احمد فراز نے سندھ میں پڑھی جانے والی نظم میں کہا:
سینہ چاکانِ مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خون منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر کو کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
کیا خبر تھی کے کل یہ شکستہ انا
اپنے زخموں کو ہی چاٹنے آئیں گے
قتل بنگال کے بعد جولائی میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آئیں گے
میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ انسانی خون سے رنگی ہوئی تحریک کی کہانی، گلیاں گھوم کر تسلیمہ نسرین اور اس کے خون کے پیاسے اسلامی بنگالی بنیاد پرستوں، کرپٹ اور ضدی فوج (جن میں سے بہت سوں کی تربیت کاکول میں ہوئی تھی)، بنگالی عورتوں، مردوں اور بچوں کے انسانی کارگو، کراچی کے متمول گھرانوں میں بنگالی خانساموں اور جنرل مشرف کے محض ’شہداِء بنگال بھاشا‘ کی قبروں پر حاضری دینے پر ختم ہوتی ہے۔