16 دسمبر کا دن یوں تو تاریخ پاکستان کا منحوس ترین دن قرار پایا ہے۔ ملک کو دولخت کرنے کہ بعد بھی اس دن نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ 16 دسمبر 2014ء کے دن ملک بھر کی ٹکٹکی ایک ایسے کپتان پر لگی تھی جو ڈی چوک پر 126 دن سے کنسرٹ جاری رکھے ہوئے تھے۔
اس کنسرٹ میں یوں تو عوام کو جمہوریت اور انتخابات کی اہمیت کا درس دیا جاتا تھا، مگر افسوس عوام نہ اس کو سمجھتی تھی نہ ہی وہ سمجھ میں آنے لائق تھا۔ وہ کپتان اس وقت ملک پاکستان کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم عمران خان ہیں۔
اس حملے کے بعد ملک پاکستان کا ہر کونا لسانی تعصبات، زبانی اختلافات، قبائل کی علیحدگی، امیری غریبی کے فرق سے بالاتر ہو کر مشترکہ طور پر سوگوار ہو گیا۔ اس وقت کے حالات اور جذبات جو عوام کے تھے وہ تو شاید تحریروں تقریروں میں بیان ہو سکیں مگر جن والدین کے بچے تھے، جن بہنوں کے بھائی تھے، ان کے جذبات اور وہ لمحات بیان کرنا ناممکن ہے۔
ان جذبات کی ہلکی جھلک اب آپ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں اے پی ایس بچوں کے والدین نے جو کیس فائل کر رکھا ہے وہاں نظر آئے گی۔ جب والدین میڈیا سے گفتگو کرکے، اس وقت کے ذمہ داران کا لب ولہجہ بتاتے، جب ان سے کہا جاتا کہ "اور پیدا کر لینا" وہ دہائیاں اور سپریم کورٹ میں کی گئی التجاء آپ کو بتاتی ہیں کہ 2014ء میں ان والدین پر کون سے قیامت آئی تھی۔
پاکستان کا ازل سے دشمن کہلایا جانے والا ملک بھارت بھی اس واقعہ سے گھبرا گیا اور سکتے میں چلا گیا۔ بھارت کے کئی سکولوں میں اے پی ایس کے بچوں کیلئے خصوصی دعائیہ تقاریب اور موم بتیاں جلا کر ان کو یاد کیا گیا۔
دنیا بھر کے ممالک ایک مرتبہ اس وحشیانہ فعل پر گھبرا گئے کہ آخر کس قسم کی جنگ اور دشمن کا سامنا پاکستان کو ہے جس میں سکول کے بچوں کو اس بے دردی سے مارا گیا ہے۔
مگر افسوس تو تب ہوا جب اس واقعہ کی ذمہ داری ہم میں سے ہی باغی ہوئے اسی سر زمین کہ افراد یعنی تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ شعورمند افراد کیلئے یہ بم بھی اتنا ہی بڑا تھا کہ سب اختلافات اپنی جگہ ریاست سے بے رخی اپنی جگہ مگر ان لوگوں کو بچوں پر بھی رحم نہ آیا جو اسی دھرتی کے تھے جن سے مارنے والے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر اس کیس میں دھچکے لگنے کا کام رکا نہیں بلکہ تسلسل سے جاری رہا یہاں تک کہ اب تک جاری ہے۔
آرمی پبلک سکول کے قاتلوں اور حملہ آوروں کے خلاف کئی آپریشن کئے گئے۔ بہت سے ملزمان اور مجرموں کو پکڑا گیا اور بالاخر پاکستان کی عوام شہداء کے لواحقین کو کچھ تسلی اس دن ہوئی جس دن حملے کا ماسٹر مائنڈ احسان اللہ احسان گرفتار ہوا اور اس نے اپنا جرم تسلیم کیا۔
مگر چونکہ اس معاملے کی حساسیت اور اہمیت ہر فرد اور ادارے کے لئے مختلف ہے۔ خدا جانے کیا معاملہ ہے جو عیاں کرنے میں مشکلات ہیں، کیونکہ جسے ہم کامیابی سمجھ رہے تھے تو وہ ناکامی میں بدلی اور احسان اللہ احسان فرار ہو گیا۔
عوام کو حقیقت سے روشناس کرتا چلوں کہ احسان اللہ احسان صرف فرار ہو کر چھپ نہیں گیا بلکہ باقاعدہ واپس اپنے ویڈیو پیغام جاری کرتا رہا یہاں تک کہ آج بھی ٹویٹر کی کئی سپیس میں اپنے گھٹیا خیالات کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے ہاں آج بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں 150 کے قریب بچوں کو جانوروں کی طرح قتل کرنے والے قاتلین کے ساتھ مذاکرات کا دور دورہ رہا اور پھر بالاخر معاہدہ طے پایا، مگر افسوس وہ معاہدہ جو بچوں کے خون کے باوجود انجام پایا وہ بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا اور طالبان نے حال ہی میں معاہدہ کی منسوخی کا اعلان کر دیا۔
ان تمام تر صورتحال میں کیا کوئی آرمی پبلک سکول کے بچوں کو یاد کر پائے گا؟ کیا ہم ان کے قتل کا بدلہ لے چکے؟ کیا ان کے قاتلوں کو سزا دے چکے؟ کیا ہم ان بچوں کے والدین کو تسلی دے سکے؟ آخر کیوں بچوں کے والدین کئی سالوں بعد آج بھی عدالتوں میں انصاف کی دہائیاں مانگ رہے ہیں؟ ان تمام تر سوالات کا جواب کئی سالوں میں آج تک نہیں مل سکا اور شاید آگے بھی نہ ملے، اس لئے "میں آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو یاد نہیں کرتا"۔
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@