سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مبینہ مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ایک اور شکایت درج کرادی گئی۔ ایڈووکیٹ شبیر راجپوت نے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف جج کے ضابطہ پر پورا نہ اترنے پر عہدے سے برطرف کرنے کی درخواست دائر کر دی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ایک کیس میں جسٹس مظاہر نقوی کی آبزرویشن سے ان کی صلاحیت اور قابلیت کے بارے میں عوامی تاثر مجروح ہوا۔ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججوں کو اپنی رائے دیتے وقت دانش کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جسٹس مظاہر نقوی کا ایک اور فیصلہ بطور جج ان کی اہلیت و قابلیت پر سوال اٹھاتا ہے۔
شکایت کنندہ ایڈووکیٹ شبیر راجپوت نے عدلیہ کی آزادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے استدعا کی کہ جسٹس مظاہر نقوی نقوی کو جج کے ضابطہ پر پورا نہ اترنے پر عہدے سے برطرف کیا جائے۔
واضح رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔
20 نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔
اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
4 دسمبر کو جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔
6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
13 دسمبر کو جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔
14 دسمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا۔ جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو مِس کنڈکٹ ریفرنس میں جواب جمع کروانے کیلئے یکم جنوری تک مہلت دی ہے۔
15 دسمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی فوری روکنے کی استدعا مسترد کردی۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے جاری کردہ 2 شوکاز نوٹسز سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔