شیر افضل مروت کی گرفتاری پر سول سوسائٹی کیوں خاموش ہے؟

گرفتاری کے ردعمل میں پاکستان کی وکلا تنظیموں کا جس قسم کا ردعمل آنا چاہئیے تھا وہ نہیں آیا۔ کیا وجہ ہے عمران خان کی حمایت میں عوام تو بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر پاکستان بھر کی وکلا تنظیموں، صحافیوں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے مؤثر آواز نہیں اٹھ رہی؟

شیر افضل مروت کی گرفتاری پر سول سوسائٹی کیوں خاموش ہے؟

جبر کے اس ماحول میں ہم اپنے ساتھی شیر افضل مروت کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ کہنا ہے وکلا رہنما عابد ساقی کا جو پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر شیر افضل مروت کو دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ عمران خان کے وکلا پنیل میں شامل ہیں۔

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ کسی بھی ملک میں جب بحرانی کیفیت چل رہی ہو، جبر کا ماحول ہو، انسانی حقوق کی بد ترین پامالی ہو رہی ہو، زبان بندی ہو، تب ہی حقیقی سیاسی تحریک چلتی ہے اور حقیقی معنوں میں لیڈرشپ کا وجود عمل میں آتا ہے۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد 9 مئی کے بوجھ تلے دبی تحریک انصاف کو جب ایک ایک کر کے تمام رہنماؤں نے چھوڑنا شروع کیا تو تب ایک شیر افضل مروت ہی تھا جو ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور اپنے کپتان کا دست بازو بن گیا۔ ایک طرف قانونی موشگافیوں کے ذریعے کپتان کا دفاع کرتا تو دوسری طرف اس نے سیاسی مورچہ بھی سنبھال لیا۔ خیبر پختونخوا کے جس شہر جس گاؤں میں گیا، عوام کا ایک جم غفیر اس کے پیچھے پیچھے چلتا نظر آیا۔ اگرچہ خیبر پختونخوا میں شیر افضل مروت کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی مگر عوام نے پولیس کی ایک نہ چلنے دی، مگر اب بدقسمتی سے پنجاب میں لاہور ہائی کورٹ کے دروازے سے ان کو گرفتار کر لیا گیا جس سے ایک بڑے صوبے کی طرف سے چھوٹے صوبے کو برا تاثر گیا ہے۔

اس وقت پاکستان میں نام کی نگران حکومت ہے۔ وفاقی اور چاروں نگران حکومتوں کو صرف ایک ٹاسک دیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو کچلنا ہے مگر تمام عوامل کے باوجود عوام میں عمران خان کی مقبولیت میں کمی نہیں آ رہی۔ سائفر کیس کی پچھلی سماعت پر عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کی تھی، اس میں انہوں نے ڈٹ کر کھڑے رہنے کی جو بات کی تھی اس نے بے شرم نگرانوں اور ان کے سہولت کاروں کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ اس بار سماعت کے دوران صحافی عمران خان سے بات نہیں کر سکے۔ ان کو اجازت نہیں دی گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نگران اور ان کے مالکان کس قدر خوفزدہ ہیں۔ اب آج لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شہرام سرور نے شیر افضل مروت کو رہا کرنے کے بجائے پیر تک سماعت ملتوی کر دی ہے تاکہ نگرانوں کو کوئی خودساختہ مقدمہ درج کرنے کی مہلت مل سکے۔

جیسا کہ سطور بالا میں عابد ساقی کا بیان لکھا ہے مگر جس طرح ایک وکیل کو لاہور ہائی کورٹ کے دروازے سے گرفتار کیا گیا ہے اس کے ردعمل میں پاکستان کی وکلا تنظیموں کا جس قسم کا ردعمل آنا چاہئیے تھا وہ نہیں آیا۔ کیا وجہ ہے عمران خان کی حمایت میں عوام تو بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر پاکستان بھر کی وکلا تنظیموں، صحافیوں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے مؤثر آواز نہیں اٹھ رہی؟ یہی صورت حال دنیا بھر میں بالخصوص یورپ اور امریکہ کی سول سوسائٹی اراکین پارلیمان کی طرف سے بھی سرد مہری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب عمران خان وزیر اعظم تھے انہوں نے ان امور کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ ملک کے اندر سول سوسائٹی، وکلا اور صحافیوں کی تنظیموں سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ یورپ، امریکہ میں کوئی لابنگ نہیں کی جس کا ان کو نقصان پہنچا ہے، بلکہ دو بار حکومت برطانیہ کی طرف سے دعوت کے باوجود دورہ نہ کرنا بڑا غلط فیصلہ تھا۔

بہرحال اب پاکستان میں جو جبر کا ماحول جاری ہے، جس طرح ایک ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے ساتھ سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس سے ملکی معیشت کو استحکام تو بالکل نہیں مل سکتا اور 8 فروری کے انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔