پاکستان تحریکِ انصاف کا پنجاب اسمبلی میں ایک نیا گروپ سامنے آ گیا

پاکستان تحریکِ انصاف کا پنجاب اسمبلی میں ایک نیا گروپ سامنے آ گیا
پاکستان تحریکِ انصاف کا پنجاب اسمبلی میں ایک نیا گروپ سامنے آ گیا ہے جس کی تعداد 15 ہے۔ دنیا نیوز کی خبر کے مطابق پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان پر مشتمل نیا گروپ سامنے آیا ہے اور سپرمیسی آف پارلیمنٹ کے نام پر بننے والے گروپ نے اپنا اجلاس بھی بلایا ہے۔

ذرائع کے مطابق گروپ نے اپنی ہی حکومت کے بلدیاتی بل پرتحفظات کا اظہار کیا تھا، 15 ارکان پر مشتمل ارکان اسمبلی کے گروپ میں آزاد ارکان بھی شامل تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ سپرمیسی آف پارلیمنٹ کے نام سے بننے والے گروپ نے مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی سے بھی رابطوں کا دعویٰ کیا تھا۔

گروپ ذرائع کے مطابق ترجمان سپرمیسی آف پارلیمنٹ غنضفر عباس شاہ نے کہا تھا کہ  تحریک انصاف کے ساتھ ہیں، سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں گے اور جہانگیر ترین گروپ سے ہمارے گروپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری جانب جہانگیر ترین گروپ بھی منگل کو ایک اجلاس منعقد کرنے جا رہا ہے اور اس حوالے سے ان کے اراکین کو میسجز بھی موصول ہو چکے ہیں۔ البتہ صحافی منصور علی خان کا کہنا ہے کہ یہ پیغامات نامعلوم نمبرز سے موصول ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ان کے مطابق یہ نہیں کہ کوئی ایجنسیز وغیرہ سے کالز آ رہی ہیں بلکہ کچھ ایسے نمبرز سے کالز موصول ہوئی ہیں جو پہلے سے ان کے پاس محفوظ نہیں تھے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ان اراکین کو شک ہے کہ ان کے فون ٹیپ کیے جا رہے ہیں اور جو حکمتِ عملی ہم بنانے جا رہے ہیں، اس پر پہلے سے حکومت کی نظر نہ ہو۔ ان اراکین کو جگہ اور وقت کے بارے میں بھی اس وقت تک کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ ان کو صرف لاہور پہنچنے کا حکم ملا ہے کیونکہ اگر جگہ کا نام پہلے سے بتا دیا جائے تو وہاں حکومت کی جانب سے کوئی ایسا آلہ رکھا جا سکتا ہے جس سے ان افراد کی تمام باتیں ریکارڈ ہو سکیں۔

مختصر یہ کہ تمام کام بہت ہی رازداری سے کیا جا رہا ہے۔ منصور علی خان کے مطابق ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں جہانگیر ترین گروپ کے ایم این ایز کو نہیں بلایا گیا، صرف ایم پی اے حضرات کو بلایا گیا ہے اور ساری توجہ ان پر ہی ہے۔ منصور علی خان کے مطابق اس گروپ میں ان کے ذرائع کے مطابق اس وقت کام شاید عثمان بزدار کے خلاف ہی ہو رہا ہے جب کہ اس سے پہلے متعدد مواقع پر سینیئر تجزیہ کار اور صحافی یہ کہہ چکے ہیں کہ اسد قیصر یا عمران خان کے خلاف ہی تحریکِ عدم اعتماد آئے گی اور عثمان بزدار کے خلاف کوئی کارروائی اس وقت تک منصوبے میں شامل نہیں۔

یاد رہے کہ اتوار کو اے آر وائے پر صحافی حسن ایوب نے خبر دی تھی کہ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان اور جہانگیر ترین میں بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اسی دوران تحریکِ انصاف کے اندر سے ایک 15 اراکین کے گروپ کا سامنے آنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ وہ بھی ن لیگ کے ساتھ رابطے میں ہیں، دلچسپی سے خالی نہیں۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ 15 اراکین کا گروپ بجٹ اجلاس سے پہلے بھی متحرک ہوا تھا اور اس نے ترقیاتی فنڈز کے لئے مہم چلائی تھی اور کچھ یقین دہانیوں اور مطالبات پورے ہونے پر اس نے حکومت ہی کا ساتھ دیا تھا۔ اور اب بھی اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی جماعت سے بلدیاتی بل کے لئے بات چیت کرنے کے لئے اکٹھا ہوا ہے اور پارٹی کا ساتھ دے گا۔

یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہفتے کو حسن ایوب ہی نے ٹوئٹر کے ذریعے خبر دی تھی کہ مولانا فضل الرحمان نے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مطالبے سے دستبرداری کی صورت میں مونس الٰہی کو ڈپٹی وزیر اعظم بنانے کی پیشکش بھی کی ہے۔

اتوار کی شام انہوں نے ایک اور ٹوئیٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران سے ملاقات کے بعد شہباز شریف کا میڈیا سے بات نہ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بات نہیں بنی۔ بات بن چکی ہے لیکن اعلان مناسب وقت پر ہی ہوگا۔ بشمول جہانگیر ترین شاید ہی کوئی حکومتی اتحادی ہو جو تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہ دے۔

ان کی جانب سے پہلے بھی خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ تحریکِ انصاف کے ایم این ایز کی جانب سے بڑی تعداد میں استعفے آنے کی صورت میں شاید حکومت کو خود اعتماد کا ووٹ لینا پڑ جائے۔

یاد رہے کہ عمران خان حکومت اعتماد کا ووٹ لینے اور بجٹ اجلاسوں میں بندے پورے کرنے کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی مشکلات کا شکار رہی ہے۔

بہت سے سیاسی تجزیہ کار یہ بھی یاد دہانی کروا رہے ہیں کہ اس سے قبل صرف ایک بار ہی پاکستان میں تحریکِ عدم اعتماد آئی ہے اور وہ بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف تھی جس میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس بہت سی ایسی ترغیبیں اور لالچیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے اراکین کو روک سکتی ہیں۔

البتہ جو حقیقت وہ فراموش کر رہے ہیں وہ بینظیر بھٹو کی اپنی جماعت پر مکمل سیاسی گرفت ہے۔ بینظیر بھٹو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نہیں، اس کی بھرپور مخالفت کے باوجود اقتدار میں آئی تھیں۔

ان کے اراکین کہیں سے توڑ کر نہیں لا کر دیے گئے تھے بلکہ انہوں نے بھرپور سیاسی جدوجہد کی تھی اور ہر مشکل کے وقت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے تھے، ضیا آمریت کے 11 سال بھگتے تھے۔

ان کا تحریکِ انصاف کے جگہ جگہ سے گھیرے ہوئے فصلی بٹیروں سے مقابلہ کرنا اس نظریاتی سیاست کی توہین کے مترادف ہے جو آج کی سیاست سے تقریباً رخصت ہو چکی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں موجودہ صورتحال کئی حوالوں سے نئی اور منفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلہ بھی دلچسپ ہو رہا ہے اور سیاست پر نظر رکھنے والے ٹکٹکی باندھے تیزی سے بدلتے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔