امریکہ کی بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں اور شہریوں کی نظر بندیوں اور انٹرنیٹ پابندیوں پر تشویش برقرار

امریکہ کی بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں اور شہریوں کی نظر بندیوں اور انٹرنیٹ پابندیوں پر تشویش برقرار
جب کبھی پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکر کیا جاتا ہے، بھارت اسے خاطر میں نہیں لاتا، لیکن جب یہی تنقید امریکہ کی طرف سے آتی ہے تو اس سے بھارت کو یقیناً فرق پڑتا ہے۔ اور پھر تنقید ہو بھی کھلے عام اور وہ بھی ایک امریکی عہدیدار کی بھارت یاترا سے چند ہی دن پہلے تو اس سے تو بھارتی حکومت کو اور بھی آگ لگتی ہے۔

جنوبی اور وسطی ایشیائی معاملات کے لئے امریکی محکمہ خارجہ کی سفارتکار ایلس ویلز نے بدھ کو شروع ہونے والے دورہ بھارت سے چند ہی دن پہلے ٹوئیٹ کی کہ امریکہ میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں اور شہریوں کی نظر بندیوں اور انٹرنیٹ پابندیوں پر تشویش برقرار ہے جو کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں نافذ کی گئی ہیں۔ ایلس ویلز نے امید ظاہر کی کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات جلد معمول پر واپس آ جائیں گے۔

لیکن بی جے پی حکومت کے لئے شاید یہ ہومیو پیتھک سی تنقید برداشت کرنا بھی مشکل ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایلس ویلز کے دورہ بھارت پر یہ معاملہ اٹھایا جاتا ہے یا نہیں۔

بھارت مستقل دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی کو اب 160 روز ہو چکے ہیں اور روز مرہ کی زندگی بدستور مفلوج ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے چند روز قبل غیر ملکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کا ایک دورہ کروایا۔ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے اس دورے کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ تاہم، امریکی سفیر نے اس میں حصہ لیا۔

یورپی یونین کے سفارتکاروں نے اس دعوت سے انکار اس لئے کیا کہ وہ بھارتی قید میں موجود کشمیری سیاستدانوں سے ملنا چاہتے تھے اور بھارتی حکومت اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ لیکن اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو بھارتی حکومت کو خوف کس چیز کا ہے؟ وہ یورپی عہدیداروں کو آزادانہ طور پر  مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دے دیتا؟

گذشتہ برس بھی یورپین پارلیمنٹ کے دائیں بازو کے ارکان کے ایک گروپ کو بھارتی این جی اوز نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کی دعوت دی تھی۔ یہ دورہ بھی بھارت کی جانب سے دنیا بھر میں اپنی ایک خوبصورت تصویر پیش کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ثابت ہوئی کیونکہ اس میں پورے یورپ میں سب سے زیادہ اسلام بیزار ارکان کو دعوت دی گئی تھی تاکہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ مقبوضہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ امریکہ کشمیر کے محاصرے کو ختم کرنے کے حوالے سے بھارت پر دباؤ ضرور ڈالے گا۔

نظامِ مواصلات پر ان پابندیوں کی وجہ سے علاقے کی معیشت تباہ ہو گئی ہے اور کشمیریوں کی حالتِ زار مزید بدتر ہو گئی ہے کیونکہ وہ مکمل طور پر دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم اور حال ہی میں متعارف کروایا جانے والا اسلام دشمن قانونِ شہریت بی جے پی کی حقیقت دنیا کو دکھانے کے لئے کافی ہے۔ اور یہ حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ نسلی اور مذہبی منافرت میں لتھڑے ہوئے غنڈوں کا ایک گروہ ہے جو جمہوریت کے لبادے میں بھارتی مسلمانوں کا خون چوس رہا ہے۔

یہ مضمون بدھ کو چھپنے والے ڈان اخبار کے اداریے کا اردو ترجمہ ہے۔