بلدیاتی انتخابات؛ MQM بائیکاٹ کے بعد نتائج زیادہ وقعت نہیں رکھتے

بلدیاتی انتخابات؛ MQM بائیکاٹ کے بعد نتائج زیادہ وقعت نہیں رکھتے
مہاجروں کے لیڈر الطاف حسین کی کراچی کے عوام کو الیکشن بائیکاٹ کی ہدایت کے بعد کراچی بلدیاتی الیکشن کی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن سے ایک دن پہلے شام کو بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ جس شام ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کا اعلان کیا، پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے ایک انٹرویو میں کراچی میئر کا پیپلز پارٹی سے ہونے کا عندیہ بھی دیا۔ بائیکاٹ سے جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے امیدوار جیت کے لئے اپنی اپنی یونین کونسلز میں زیادہ متحرک ہو گئے۔ کراچی میئر کے لئے سیاسی جماعتوں کو کراچی کی 246 یونین کونسلز میں سے 124 میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔

انتخابات سے صرف ایک رات قبل ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی کے تمام اضلاع سمیت حیدر آباد ڈویژن اور ٹھٹھہ ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ ایم کیو ایم 'لندن گروپ' الطاف حسین نے اپنے ویڈیو پیغام میں مہاجروں کو انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا کہا تھا۔ وہی ہوا جو الطاف بھائی نے کہا، ایم کیو ایم پاکستان نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان آج بھی الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی ہی وجہ سے کچھ نشستیں جیتی ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام ناراض ارکان ایک ہونے کے باوجود اپنی طاقت منوا نہیں سکے۔

ایم کیو ایم کا بائیکاٹ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ سے جماعت اسلامی کو کراچی کی میئرشپ مل گئی تھی۔ جماعت اسلامی کے میئر نعمت اللہ خان نے کراچی کے مرکزی پارک گلشن جناح میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ یاد رہے جماعت اسلامی کو 3 مرتبہ کراچی کی میئرشپ مل چکی ہے جس میں 1979 میں عبد الستار افغانی، 1983 میں بھی عبدالستار افغانی جبکہ 2001 میں نعمت اللہ خان کراچی کے میئر بنے تھے۔

اس کے بعد 2006 میں مصطفیٰ کمال جبکہ 2016 میں وسیم اختر کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم کا ووٹ بینک جنرل الیکشن اور بلدیاتی انتخابات دونوں میں مرکزی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تین دہائیوں سے کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا ہی راج رہا ہے۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی میں پیپلزپارٹی نشستیں حاصل کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی نے کراچی میں مقامی سطح پر چار اضلاع ملیر، کیماڑی، شرقی اور جنوبی میں اپنی قیادت کو زیادہ متحرک رکھا۔ ان چاروں اضلاع میں کل یونین کونسلز کی بات کریں تو یہ 132 بنتی ہیں۔ ان میں سے شرقی میں 43، ملیر میں 30، جنوبی میں27 جبکہ کیماڑی میں 32 یونین کونسلز ہیں۔

سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ضلع کونسلز اور 4 میونسپل کمیٹیوں میں بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پہلے مرحلے میں دیہی سندھ کے 14 اضلاع میں پیپلزپارٹی نے 611 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ دوسرے نمبر پر جی ڈی اے نے 86 نشستیں اپنے نام کیں۔

2018 کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کراچی میں بڑے بڑے جلسے کرنے کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں بری طرح ناکام رہی۔ دوسرا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے مقامی انتخابات کو اہمیت نہیں دی جس کی ایک وجہ بلدیاتی انتخابات کا بار بار ملتوی ہونا ہے۔ تحریک انصاف کے نامزد میئر خرم شیر زمان اپنی یونین کونسل بھی نہ جیت سکے۔

2015 کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا اتحاد ہونے کے باوجود ایم کیو ایم نے انہیں شکست دی تھی۔ ایم کیو ایم کی تقسیم سے ان کے ووٹرز بھی تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان اور لندن گروپ آج بھی ووٹرز کی نظر میں دو مختلف نظریات کے حامل رہنماؤں کے گروپ ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کا بائیکاٹ مستقبل کے جنرل انتخابات کی بھی تصویر کشی کر رہا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کی سیاست میں مہاجروں کے ووٹ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس لئے ایم کیو ایم پاکستان کو اپنی سیاسی بقا کے لئے مہاجروں کا اعتماد پھر سے حاصل کرنا ہوگا۔

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی پہلے، جماعت اسلامی دوسرے جبکہ تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کراچی میں نئے سیاسی دور کا آغاز ہے۔ مقامی سطح کی سیاست اور قومی سطح کی سیاست میں اہم فرق عوامی مسائل کو جلد از جلد حل کرنا ہوتا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو دیہی سندھ کی طرح اربن سندھ یعنی کراچی اور حیدر آباد بھی پیپلزپارٹی کی سیاست کا اہم مرکز بن جائے گا۔

وجیہہ اسلم صحافت سے وابستہ ہیں۔