کہنے کو تو وطنِ عزیز ایک زرعی ملک ہے مگر پچھلے سات عشروں میں کسان معاشی طور پر زبوں حالی کی طرف ہی لڑھکتا جا رہا ہے ۔ زراعت کے شعبے میں ریسرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کپاس کی فصل تقریباً ناپید ہونے کے قریب ہے۔ (جی ہاں ہم کبھی سوتی کپڑا برآمد کرتے تھے)۔
بیرونِ ملک سے منگوائی جانے والی ادویات پر انحصار بڑھ گیا ہے مگر آمدنی دن بدن بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔ ان سب سے بچ کر جو کسر رہ گئی تھی وہ نئے پاکستان کے بانیان نے پوری کر دی۔
کسان کو بیج، ادویات اور کھادیں مہنگی تو ملتی ہی ہیں معیاری بہرحال نہیں ہوتی۔ مگر پھر بھی کسان دو وقت کی روٹی کی خاطر شہرِ اقتدار کی جانب لانگ مارچ نہیں کرتا کیونکہ یہاں تو احتجاج کرنے والوں کو سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ہسپتال میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سرحد پار کے کسان بھارت سرکار کے خلاف سراپا احتجاج ہیں تو اُن کو وطنِ عزیز سے داد اور حمایت کے پیغامات دیے جارہے ہیں اور بھارتی حکومت کے رویے پر لعن طعن ہو رہی ہے مگر عین اسی وقت حکمران جماعت یا حزبِ اختلاف میں سے کسی نے اپنے ملک کے کسانوں کا احوال پوچھنا گوارہ تک نہیں کیا۔
دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے ہی اپنے نعرے کی نفی کر دی۔ سندھ میں گندم رواں برس 2000 روپے میں فروخت ہو گی مگر پنجاب میں 1650 روپے میں۔ ایسی صورتحال میں بھلا کون حکومت کو گندم فروخت کرے گا اور نقصان اٹھائے گا۔
اپنے حق میں بیانات دلوانا پھر ان کی مشہوری کرنا اور داد سمیٹنا تحریک انصاف سے بہتر کون جانتا ہے ہے۔ کٔل وقتی سوشل میڈیا ٹیم کے بل بوتے پر سیاہ کو سفید اور دن کو رات بتانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے میں چند روز قبل پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور انکی حکومت کے سوشل میڈیا سیل نے ایک ایسے کسان کی ویڈیو جاری کی جو موجودہ حکومت سے " حکومت سے بھی زیادہ" مطمئن تھا اور بظاہر ایسا دکھانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت کسانوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں اور اس پر تنقید کفرانِ نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔
موجودہ حکومت نے زراعت پر دو ایسے کاری وار کیے ہیں جن کا درد ہر کسان محسوس کر رہا ہے۔ پہلے اس حکومت نے کھادوں پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر کے کسان کو خون کے آنسو رلایا۔ (صرف چھ مہینے پہلے تک 3200 میں فروخت ہونے والی ڈی اے پی اس وقت 5500 کی مل رہی ہے۔) اور اب زرعی استعمال کے لیے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرکے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ گزشتہ دورِ حکومت میں زرعی ٹیوب ویلوں کو فراہم ہونے والی بجلی کا ریٹ 5.35 روپے مقرر کیا گیا تھا جو ٹیکس لگنے کے بعد آٹھ روپے تک پڑتا تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ کے آئی ایم ایف کے دباؤ پر فی یونٹ قیمت 6.35 کرنے کے بعد اس پر فیول ایڈجسٹمنٹ اور دوسرے چارجز ڈال دیے گئے ہیں جس کے بعد اب ایک یونٹ تقریباً 16.50 روپے کا پڑ رہا ہے۔
چھوٹے کسانوں کی حکومت سے درخواست ہے کہ کسان کو کسان ہی سمجھا جائے اپوزیشن نہیں۔ اور حکومت کی لڑائی مخالف سیاسی جماعتوں سے ہے کسانوں سے نہیں، لہذا أن سے اس جرم کا بدلہ نہ لیا جائے کہ وہ تیز دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں بھی محنت کرکے اس ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
مصنف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹیڈیز میں بیچلرز کررہے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات، سیاست اور کھیلوں سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ فیس بک پر ان سے facebook.com/miangee596 اور ٹوئٹر پر @Miangee_596 سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔