دارالحکومت اسلام آباد میں ایک فعال اور با اختیار مقامی حکومت کا خواب: 'یہاں کی گورننس اور نمائندگی کو جمہوری بنانا ناگزیر ہوچکا'

دارالحکومت اسلام آباد میں ایک فعال اور با اختیار مقامی حکومت کا خواب: 'یہاں کی گورننس اور نمائندگی کو جمہوری بنانا ناگزیر ہوچکا'
اسلام آباد کی لوکل گورنمنٹ کی کہانی ابراہیم ذوق کے اس مصرعے کے مصداق ہے کہ حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے 16 فروری 2021 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا کہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن کے امور چلانے کے لیئے چھ ماہ کے لیئے کارپوریشن کےچیف افسر کو مقرر کیا جاتا ہے۔ یہ تقرری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک وفاقی دارلحکومت میں نئے بدلیاتی انتخابات نہیں ہوجاتے۔

اس نوٹیفکیشن کی زبان بتاتی ہے کہ وفاقی حکومت کا مستقبل قریب میں اسلام آباد میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017 تو مدت کی تکمیل کے بعد 120 دنوں میں نئے انتخابات کرانے کی ڈیڈ لائن دیتا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں تاریخ کی پہلی پولیو زدہ حکومت 2015 میں قائم ہوئی۔ نہ چاہتے ہوئے ایک ناقص قانون کے تحت الیکشن ہوئے اور ایک ٹیکنوکریٹ کو مئیر بنایا گیا۔ جو کچھ کیئے بغیر تاریخ کے کوڑا دان میں چلے  گئے۔

تاہم یہ  لوکل گورنمنٹ افراد افراد کے حوالے سے اتنی تگڑی تھی کہ آج ان میں سے ایک قائد حزب اختلاف ایم این اے ہیں۔ اسلام آباد سے ایک دوسری نشست پر بھی لنگڑی لولی لوکل گورنمنٹ کے رکن ممبر قومی اسمبلی بنے۔ اس لوکل گورنمنٹ کے دو اراکین سینیٹ آف پاکستان میں بھی پہنچ چکے۔ سینیٹر سیمی ایزدی اور سینیٹر فوزیہ ارشد اپنی اپنی یونین کونسل کا حصہ تھیں۔

اسلام آباد لوکل گورنمنٹ کی ایک رکن عابدہ راجہ پنجاب اسمبلی کی ممبر بن چکی ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد کی لوکل گورنمنٹ واقعی ہی سکول آف ڈیموکریسی ثابت ہوئی۔ لیکن جہاں تک اسکے اصل مینڈیٹ کا تعلق ہے وہ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ تنازعوں میں ہی الجھا رہا۔ باوجود اسکے کہ لوکل گورنمنٹ کی مدت مکمل ہوچکی نہ تو اکسے قوائد و ضوابط بن سکے اور نہ ہی اسکو کوئی خاطر خواہ واسائل ملے۔ اسکے سارے اجلاس پاک چائینہ فرینڈشپ سینٹر میں ہی ہوئے۔ گویا اسکو کوئی اپنا اسمبلی ہال بھی نصیب نہ ہوا۔ کنوینشن سینٹر جسے اب نجکاری کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ہال بن  سکتا تھا۔

اسلام آباد میٹروپولیٹین کارپوریشن کے دوسرے میئر بری امام سے تھے اور وہ بھی اس نظام کی کھوٹی قسمت کھری نہ کرسکے۔ تاہم سبق ضرور ملا کہ اسلام آباد کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ یہان وزیر اعظم اپنی ٹرم مکمل نہیں کرتے بلکہ میئر کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اسلام آباد کے پہلے میئر کو معطل کیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بحال کردیا بعد ازاں شیخ انصر عزیز خود مستعفی ہوگئے اور بری امام کے عادل گیلانی اس مدت میں دوسرے مئیر بنے۔  اب امید ہے کہ اسلام آباد کے لوکل گورمنٹ کے قانون کو بہتر بنایا جائے گا اور جلد از جلد نئے الیکشن کرائے جائیں گے۔

اسلام آباد کی سیاسی نمائندگی کون کرتا ہے اہم سوال ہے۔ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں۔ انہیں میں سے ایک اسد عمر کے پاس ہے جن کا تعلق کراچی سے ہے۔ اسلام آباد سے 4 سینیٹر بھی منتخب ہوئے ہیں۔ خواتین کی نشست F7 یوسی کی سابق چئیرمین فوزیہ ارشد نے حاصل کی جبکہ جنرل سیٹ پر مقابلہ سید یوسف رضا گیلانی اور عبدالحفیظ شیخ کے مابین ہوا۔ جو کہ اسلام آباد کے پکے گھروں میں خانہ بدوش ہیں۔ دیگر دو نشستوں پر سید مشاہد حسین اور سندھ سے تعلق رکھنے والے اسد جونیجو سینیٹر ہیں۔

اسلام آباد سے سینیٹ کی نمائندگی کا حق  کون رکھتا ہے؟ ایک اہم سوال ہے۔ سینیٹ آف پاکستان کی کمیٹی آف پول نے جب سینیٹ الیکشن میں اصلاحات کی سفارشات مرتب کی تو ایک قرارداد یہ بھی منظور کی گئی کہ یہاں کے سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ایکٹورل کالج کی بجائے یہاں کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کرے۔

تاہم اس پر صفر عملدرامد ہوا۔ اسلام آباد میں آبادی پورے ملک کے مقابلے میں برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ 1960 میں وفاقی دارالحکومت بننے کے بعد سے اسلام آباد میں جنم لینے والی ایک دو نسلیں جوان ہوچکیں ہیں لہذہٰ وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد کی گورننس اور یہاں کی نمائندگی کو جمہوری بنایا جائےوگرنہ اس بار تو کسی نے بلدیاتی نظام کی موت پر فاتحہ تک نہیں پڑھی۔