کرونا سنٹرز کے قیدیوں کا صبر جواب دینے لگا، سرکاری حکام کی لاپرواہی، عدم توجہی اور بے حسی کے شکار شہری کرونا سنٹرز سے ویڈیو بنا بنا کر بھیجنے لگے، جن میں وہ جہاں اپنی مدد کے لئے روتے ہوئے داد فریاد کرتے اور حکام کی انتہائی بے حسی کا ماتم کر رہے ہیں وہیں حکمرانوں اور سیاسی قیادت کو بددعائیں دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسی ویڈیوز زیادہ تر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں یعنی وزیراعلیٰ اور سول و عسکری صوبائی حکام کی ناک کے نیچے قائم کرونا سنٹرز سے جاری ہو رہی ہیں۔ ان ویڈیوز میں کرونا سنٹرز میں داخل کئے گئے شہری بتا رہے ہیں کہ وہ مریض سے زیادہ بے بس قیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جن سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، ماسوائے غیر مسلم سویپرز کے کوئی ان کے پاس پھٹکتا تک نہیں جبکہ سویپرز بھی نفرت بھرا رویہ دکھا رہے ہیں، جو ضرورت کے وقت مانگنے پر کھانے پینے کی اشیا ان کے کمروں میں ایسے پھینک کر جاتے ہیں جیسے جانوروں کو چارہ ڈالا جاتا ہے۔
حکومت اور سرکاری حکام کی بے حسی پر ماتم کناں متعدد مریضوں کا کہنا ہے کہ وہ بے حس حکمرانوں اور سرکاری عملے کی طرف سے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے اچھوتوں جیسے برتاؤ کے باعث زندگی میں پہلی بار موبائل فون سے ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ شہر کے دل یعنی مزنگ کے علاقے میں قائم کرونا سنٹر میں داخل ایک بظاہر ناخواندہ مریض نے پنجابی زبان میں اپنی بپتا سناتے ہوئے، روتے ہوئے کہا کہ حکمرانو! اس سے اچھا ہے ہمیں مار دو۔
واضح رہے کہ کرونا سنٹرز میں قید شہریوں کی حالت زار کی داستانیں اب عام ہوتی جا رہی ہیں، یہاں تک کہ مریضوں کے احتجاجی مظاہروں اور اجتماعی طور پر داد فریاد اور چیخ و پکار کرتے کرونا قیدیوں کی آئے روز کوئی نہ کوئی ویڈیو منظر عام پر آ رہی ہے، مگر حکومت اور انتظامی حکام کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
دوسری طرف کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں سے سماجی نفرت اور اس وبا سے جنم لینے والے سنگین نفسیاتی مسائل کے شکار شہریوں کی کہانیاں بھی اب زبان زد عام ہوتی جارہی ہیں۔ اس ضمن میں ہفتہ بھر قبل کھٹیک منڈی دھرم پورہ میں کرونا کے ایک مشتبہ مریض 27 سالہ نوجوان دکاندار حبیب بٹ کی ٹیسٹ رپورٹ آنے کے بعد 24 گھنٹے کے اندر کرونا کی بجائے کرونا اور کرونا سنٹرز میں داخل شہریوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے خوف سے موت ہوجانے کا واقعہ ایک واضح مثال ہے۔
اس کا ٹیسٹ پازیٹو آجانے کی خبر ان کے قریبی حلقوں میں اس تیزی سے پھیلی تھی کہ ان کے پڑوسی دکاندار آن کی آن میں دکانیں بند کر کے بھاگنا شروع ہو گئے۔ پھر اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں داروں کے بھی اسی طرح کے برتاؤ سے اس کا خوف خطرناک حد تک بڑھ گیا کہ ہسپتال لے جائے جانے کے خوف سے حبیب بٹ فوری طور پر وہاں سے بھاگ لیا تھا، نصف شب کے بعد حبیب چھپتا چھپاتا اپنے گھر پہنچا تو فیملی نے اسے گھر کی چوتھی منزل پر واقع ایک کمرہ میں چھپا دیا تھا جہاں وہ اکیلا خوف کی دلدل میں لمحہ بہ لمحہ دھنستا چلا گیا اور صبح پو پھوٹتے ہی اس کا جسم زندگی سے محروم ہو چکا تھا۔
کئی گھنٹوں بعد ریسکیو ٹیم نے آ کر کرین سے اس کی لاش اتاری تھی اور اسے پولیس کی تحویل میں دس سے کم لوگوں کے ساتھ دفنا دیا گیا تھا۔ کرونا کی تشخیص کے بعد حبیب بٹ کو اچھوت قرار دے کر اس سے روا رکھے جانے والے نفرت انگیز اجتماعی سلوک کے ساتھ ساتھ اس کرب ناک واقعہ کی کوریج کے لیے میڈیا کا بلیک آوٹ اور پولیس کا لواحقین سے مجرموں جیسا ظالمانہ برتاؤ کرونا سے لڑنے کی حکومتی پالیسیوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے کافی ہے۔