اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ جج بننے کے لیے دہری شہریت رکھنے کی ممانعت نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین میں جج بننے کے لیے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں ہے۔ کسی بھی وکیل سے ہائی کورٹ کا جج بنتے وقت دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں۔
رجسٹرارآفس نے مزید کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے 6 ججز کے خط پر از خود کیس کی کارروائی میں اس بات کو واضح کیا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں بات ہوئی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے مشاورت اورغور کے بعد جسٹس بابر ستار کو بطور جج مقرر کرنے کی منظوری دی۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی باتوں کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔ ہائیکورٹ کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی تھی کہ جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ 30 اپریل کو سینیٹر فیصل واؤڈا نے آرٹیکل 19 اے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے تعیناتی سے قبل گرین کارڈ ہولڈر ہونے سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ فیصل واؤڈا نے جسٹس بابر ستار کی جانب سے تعیناتی سے قبل گرین کارڈ ہولڈر ہونے کی انفارمیشن فراہم کرنے کا ریکارڈ مانگا تھا۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے اپنی درخواست میں مَوقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جسٹس بابر ستار کیخلاف مہم سے متعلق پریس ریلیز جاری کی گئی تھی جس میں کہا کہ جسٹس بابر ستار نے جج بننے سے پہلے اپنے گرین کارڈ سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس کو آگاہ کردیا تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
درخواست میں استدعا کی گئی کہ جسٹس بابر ستار اور اس وقت کے چیف جسٹس کے درمیان گرین کارڈ سے متعلق ہونے والی خط و کتابت فراہم کی جائے۔ گرین کارڈ سے متعلق خط و کتابت کو پبلک کرنے سے جسٹس بابر ستار کیخلاف پروپیگنڈا مہم ہمیشہ کیلئے دم توڑ جائے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت کی تھی۔
عدالت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف جاری سنگین قسم کی سوشل میڈیا مہم کے حوالے سے اعلامیہ جاری کر دیا۔
عدالت نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت کردی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار کی والدہ 1992 سے سکول چلارہی ہیں۔ جس کے وہ لیگل ایڈوائزر رہے اور فیس وصول کی۔ جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے۔ جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستان سکونت اختیار کی۔ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی شہریت سوشل میڈیا مہم کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے۔ جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ جسٹس بابر ستار، اُن کی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ لاء کالج اور ہاورڈ لاء کالج سے تعلیم حاصل کی۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی وجہ سے جسٹس بابر ستار کو امریکا کا مستقل ریڈیڈنسی کارڈ ملا تھا۔ 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔