اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزیراعظم کو کسی کو معاون رکھنے کا بھی اختیار نہ دیں تو نظام کیسے چلے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم کے دہری شہریت والے معاونین خصوصی کو عہدوں سے ہٹانے کی درخواست کی سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بتائیں آئین میں کہاں لکھا ہے کہ وزیراعظم کے معاونین دہری شہریت نہیں رکھ سکتے؟، وزیراعظم کو جب عوام منتخب کرتے ہیں تو ان پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں، وہ اگر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے کسی کی مدد لے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اگر انہیں اتنا اختیار بھی نہ دیں کہ وہ کسی کو معاون رکھے تو کیسے نظام چلے گا؟۔
درخواستگزار وکیل اکرم چوہدری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 93 کے تحت صرف پانچ مشیر مقرر کئے جا سکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 93 مشیروں سے متعلق ہے، معاونین خصوصی سے متعلق نہیں ہے، آئین میں یہ دکھائیں جس جگہ لکھا ہے کہ معاونین دہری شہریت نہیں رکھ سکتے۔
درخواستگزار نے کہا کہ آئین میں ایسا کچھ نہیں لکھا لیکن رولز آف بزنس میں یہ پابندی موجود ہے، رُول پندرہ میں اس قسم کی پابندی موجود ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رُول 15 تو 2010 میں حذف کیا جا چکا ہے۔
عدالت نے معاونین خصوصی کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ دوہری شہریت رکھنے والے بھی پاکستانی ہیں، جن کی پاکستان سے حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا، معاون خصوصی کا تقرر وزیراعظم کا اختیار ہے جن کی تعداد پر بھی کوئی پابندی نہیں، وزیر اعظم کا معاون خصوصی دوہری شہریت پر نااہل بھی نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ کابینہ کے 19 غیر منتخب ارکان میں سے چار معاونین خصوصی دہری شہریت رکھتے ہیں، ندیم بابر اور شہزاد قاسم امریکا، زلفی بخاری برطانیہ جبکہ تانیہ آیدرس کینیڈا کی شہریت رکھتی ہیں جنہیں برخاست کرنے کا حکم دیا جائے۔