Get Alerts

آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں. اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا. آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔

آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت غیر معینہ مدت تک کےلیے ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ ہم قانون توڑیں یا فوج توڑے، ایک ہی بات ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا۔عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی۔

 سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا، وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں کیس میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترمیم کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیرالتواء ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ کل میں نے چیک کیا تھا۔ درخواست اب تک زیر التواء ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی تھی؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی تھی۔

عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکمنامہ طلب کرکے مخدوم علی خان کو ہدایت کہ آپ اونچا بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی آپ کو سن سکیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب دائر ہوئی؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست 4  جولائی 2022 کو دائر ہوئی۔ سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا۔

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں درخواست پر پہلی سماعت 19 جولائی 2022 کو ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر اس وقت رجسٹرار آفس کے اعتراضات کیا تھے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا تھا کہ درخواست گزار نے کسی اور متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا۔

مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی  کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھ دیں۔ کہا 19 جولائی 2022 کو درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری ہوئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مرکزی کیس کی کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ مرکزی کیس  کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست کب دائر ہوئی؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4جولائی 2022کو دائر ہوئی جبکہ سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6جولائی 2022کو لگا سماعت 19جولائی کو ہوئی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا تھا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل لئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پرویز مشرف نے 12اکتوبر کو اقتدار سنبھالا۔دسمبر میں آرڈیننس آگیا۔پرویز مشرف نے 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں پورا آرڈیننس بنا دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟ مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کیس کے قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ میں پہلے 9 رکنی بینچ تھا۔ دو ججوں نے معذرت  کی تو پھر 7 رکنی بینچ باقی رہ گیا۔ ججوں نے رائے کا اظہار کردیا اور کہا کیس قابل سماعت نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس کے پہلے دن کوئی جج رائے کا اظہار کرے تو وہ بینچ سے الگ نہیں ہوجاتا۔ اس کیس میں کوئی جج اپنی رائے کا اظہار کردے تب بھی وہ بینچ کا حصہ رہے گا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ فیصلے کی ایک اور چیز بھی اہم ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز نے کہا تھا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے لازم ہیں۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پر ہم 2 ججز نے ناقابل سماعت کہا تھا۔ ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے۔لاہور ہائیکورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کیخلاف انٹرا کورٹ حکم جاری نہیں ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہاں ہے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔ اختلاف رائے تھا کہ 7 ججز نے دستخط کرنے ہیں یا 5 ججز نے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر تو اُس فیصلے کو فیصلہ نہ کہیں، فیصلہ وہ ہوتا ہے جس میں کورٹ کا آرڈر یا حکم موجود ہو۔

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں۔ ہائی کورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی۔ نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا۔

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس مکمل کرکے نیب ترامیم کیس سنا گیا۔ عدالت میں ہمارا مؤقف تھا کہ کسی قانون کو معطل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں بل کی سطح پر اسے معطل کیا گیا۔  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں ہم نے آرڈر آف دی کورٹ جاری کیا۔

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس مکمل کرکے نیب ترامیم کیس سنا گیا۔عدالت میں ہمارا مؤقف تھا کہ کسی قانون کو معطل نہیں کیا جاسکتا ہے. پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں بل کی سطح پر اسے معطل کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں ہم نے آرڈر آف دی کورٹ جاری کیا۔

دوسری جانب بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک پر موجود ہے تاہم بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ان کی ویڈیو بڑی سکرین سے ہٹا دی گئی۔ پولیس اہلکار بڑی لائٹ بند  کرکے خود کمرے سے باہر چلے گئے۔ جیل اہلکاروں کے دوبارہ بڑی لائٹ آن کرنے پر بانی پی ٹی آئی نے برہمی کا بھی اظہار کیا۔

بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے عملے کو بلاکر کچھ ہدایات دیں۔

بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے باعث کمرہ عدالت کے باہر سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔ ایس ایس پی سکیورٹی خود کمرہ عدالت کے باہر پہنچ گئے۔ کمرہ عدالت میں داخل ہونے والے ہر شخص کی تلاشی لی جارہی ہے۔ کسی بھی غیر متعلقہ شخص  کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں۔

دوران سماعت ایک وکیل نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں ہورہی۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں۔ اس وقت دلائل چل رہے ہیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتے تھے۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل کو سیٹ پر دوبارہ بٹھا دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھایا غلط مگر بہرحال اسی عدالت کے حکم پر ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں. اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا. آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔

جسٹس جمال نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون معطل کرنا کیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنا نہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسا ہے تو پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ ہم قانون توڑیں یا فوج توڑے ایک ہی بات ہے۔ ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے؟ ایک قانون کو معطل کرکے پھر روزانہ کیس سن کر فیصلہ تو کرتے۔ قانون معطل کرکے اس کے خلاف بینچ بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا استحصال نہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نکتہ بھی اٹھایا تھا۔ آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نکتہ نظر نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کرسکتا ہے یا کوئی بھی شخص؟ حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں. قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ 2 تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا۔ متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی ممبران بھی آسکتے ہیں۔ اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022 کے فالو اپ پر 2023 کی ترامیم بھی آئی تھیں. عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو کیا آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سے جواب لیں گے۔ بانی پی ٹی آئی صاحب آپ یہ نکات نوٹ کر لیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریمارکس کے ساتھ زیرلب مسکرائے۔ چیف جسٹس کی مسکراہٹ دیکھ کر بانی پی ٹی آئی بھی منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازعہ تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا۔ یہ ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا۔ عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر ضروری ہے۔ مخدوم صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں؟ یہاں تو اسے ختم کرنے کے لیے کوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈینس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں۔ آرڈینس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی پوری قوم پر تھوپ دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں؟ کیا آرڈینس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو روسٹرم پر بلالیا۔ ریمارکس دیے کہ آپ نے ججوں کو پراکسی کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا ہے؟ کیا آپ پگڑیوں کے فٹبال بنائیں گے؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جواب دیا کہ یہ سب توہین آمیز تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی درخواست لانے کے مجاز نہیں تھے۔ اس نکتے پر بات مکمل کریں۔ اس کے بعد ہم آج کی کارروائی ختم کریں گے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سیاستدان ہیں۔سیاسی تنازعات پارلیمان میں رکھنا چاہیے تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ہم کسی سیاستدان کی درخواست نہ سنا کریں؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی سر عدالت کو صرف عام شہریوں کی درخواست سننی چاہیے۔ بعد ازاں عدالت نے  نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ آئندہ سماعت بینچ کی دستیابی پر ہوگی۔ عدالت نے عدالت کی بانی پی ٹی آئی کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں آئندہ ہفتے دستیاب نہیں ہوں۔ خواجہ حارث صاحب آپ تو کہیں نہیں جا رہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی نہیں میں یہیں ہوں۔ مجھے کہیں بھی نہیں جانا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی بھی جیل سے کہیں نہیں جا رہے۔جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ پچھلی نشستوں سے علی محمد خان نے کہا کہ وہ جیل سے سیدھے وزیراعظم ہاؤس جائیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کا حکمنامہ لکھوا دیا۔حکمنامے کے مطابق وفاقی حکومت کے وکیل نے ابتدائی دلائل دیے۔ آئندہ سماعت پر بھی مخدوم علی خان دلائل جاری رکھیں گے۔

کیس کا پس منظٖر

سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں ۔ وفاقی حکومت نے اس فیصلے کیخلاف پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل دائر کی تھی ۔ 

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم میں سے اکثر کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم کردیا۔

فیصلے کے چیدہ نکات

·        عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال

·        عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بحال

·        نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے مقدمات بھی بحال

·        ختم کیے گئے ‏مقدمات ایک ہفتے کے اندر دوبارہ احتساب عدالتوں میں لگانے کا حکم

·        نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت

·        سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق برقرار

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی ہیں۔ فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کرپشن کے ختم کیے گئے ‏تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق بحال رکھی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے۔ آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔  پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے ہیں۔

تحریری حکم نامہ

بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ کا اکثریتی فیصلہ جاری کیا اور 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس نے خود تحریر کیا اور فیصلے میں 2 صفحات پر مشتمل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریری حکم میں کہا کہ نیب ترمیمی سیکشن 3 اور سیکشن 4 سے متعلق کی گئی ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، عوامی عہدے رکھنے والوں کے حوالے سے نیب قانون پر لگائی گئی حد اور 50 کروڑ کی حد ترامیم کو کالعدم کیا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں تاہم آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے اور ترامیم کی روشنی میں احتساب عدالتوں کی جانب سے دے گئے احکامات بھی کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجے، اس کے ساتھ تمام تحقیقات اور انکوائریز بھی بحال کی جاتی ہیں اور وہی سے عمل شروع ہوگا جہاں پر اس سے ختم کردیا گیا تھا۔

تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ کرپشن اور بے ایمانی کی تعریف کے حوالے سے کی گئی ترمیم اور پہلی ترمیم کا سیکشن 8 بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔