https://twitter.com/kamranbhatti888/status/1195760812645920770?s=20
دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت کے حامی سمجھے جانے والے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار صابر شاکر کا کہنا ہے کہ دو اتحادی جماعتوں نے اپنے بیانات کے ذریعے ان ہاوس تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے۔ سینئر صحافی کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کی جانب سے نواز شریف کے حق میں 2 روز سے جس طرح کے بیانات دیے گئے ہیں، صاف ظاہر ہے یہ جماعتیں اب حکومت کے ساتھ ہاتھ کرنے والی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات عندیہ دے رہے ہیں کہ یہ جماعتیں اب حکومت کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
اطلاعات بھی ہیں کہ ان ہاوس تبدیلی کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان ہاوس تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹا کر آپس میں مل بانٹ کر کھائیں گے۔ صابر شاکر کا کہنا ہے کہ ایک جانب مسلم لیگ ق والے نواز شریف کی واضح حمایت کرتے ہوئے حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں بیرون ملک جانے دیں۔ دوسری جانب ایم کیو ایم والے درخواست کرنے کی بجائے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔
صابر شاکر کا کہنا ہے کہ حکومت کے اتحادی وزیراعظم کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اتحادی جماعتیں حکومت میں مزید حصہ چاہتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ اتحادی جماتیں اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملا کر ان ہاوس تبدیلی کی کوشش کریں گی۔ وزیراعظم عمران خان کو اس تمام صورتحال کا ادراک ہے۔ اس حوالے سے آئندہ چند روز اہم ہوں گے۔
دوسری جانب سینیر تجزیہ نگار مرتضی سولنگی کہتے ہیں کہ نواز شریف کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو گئیں، حکومت یہ کام پہلے بھی کرسکتی تھی تاہم حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے بلاجواز رکاوٹیں کھڑی کی۔
مرتضی سولنگی کا کہنا تھا کہ اگر میاں نوازشریف شیورٹی بانڈز جمع کرانے کے بعد واپس بھی آجاتے تو بیانیہ یہی ہونا تھا کہ نوازشریف پیسوں کی وجہ سے واپس آئے ہیں۔
تجزیہ نگار انصار عباسی کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کا تازہ ترین بیان ق لیگی رہنماؤں کی پریشانی کی عکاسی کرتا ہے کہ حالات ایسے ہی چلتے رہے تو 3؍ سے 6؍ ماہ بعد کوئی بھی وزیراعظم بننے کے لیے آمادہ نہیں ہوگا۔
انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق گجرات سے تعلق رکھنے والے ق لیگ کے اہم رہنما کے مطابق ملک کا مجموعی منظر نامہ پریشان کن ہو چکا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ حالات ایسے نہیں چل سکتے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ق لیگ نے کئی مرتبہ مشورہ دیا لیکن پی ٹی آئی والوں نے اس پر دھیان نہیں دیا کہ معیشت اور طرز حکمرانی پر توجہ دیں نہ احتساب جیسے متنازع معاملے پر ق لیگ کے رہنما نے اس تاثر کی نفی کی کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے حالیہ بیانات سوچ کی کہیں اور ممکنہ تبدیلی کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔
ق لیگ کے رہنما نے کہا کہ حکومت کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئی ہے اس لئے کوئی بھی مطمئن نہیں۔ انہوں نے 2018ء کے الیکشن کے بعد عمران خان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین نے خان کو مشورہ دیا تھا کہ معیشت پر توجہ دیں تاکہ ملک کی مالی صحت کو بہتر بنایا جاسکے اور اس کے بعد ہی کرپٹ افراد کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔
گزشتہ روز ٹی وی انٹرویو میں چوہدری پرویز الٰہی نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اعتماد سازی کا ماحول بنانے اور معیشت بہتر کرنے پر توجہ مرکوز رکھے۔
پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کی جانب نرمی کا مظاہرہ کرے اور ساتھ ہی احتساب کی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرے، حکومت کو چاہئے کہ وہ سیاسی نوعیت کے کیسز پر کارروائی سے گریز کرے۔
حکومت کے قریب ایک پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ یہ تمام باتیں غلط ہیں، جب ہمیں حکومت ملی تو ملک خراب حالت میں تھا، ہم نے حالات درست کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، اب ان اقدامات کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں، آئی ایم ایف سے قرض کے حصول میں کامیابی حاصل کی اور مالی خسارہ کم کیا، کشمیر پر پاکستان کے نقطہ نظر سے دنیا کو آگاہ کیا، یہ اور یہ مسئلہ نئے سرے سے بہترین انداز میں اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے حوالے سے عمران خان کے ویژن کو آگے بڑھا رہےہیں اور عوام کو اس سے آگاہ بھی کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری کا قیام تاریخی اقدام ہے جس سے مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔