اپنا کام کوئی کرنے کو تیار نہیں، دوسرے کا کام کر کے سب ہیرو بننا چاہتے ہیں

اپنا کام کوئی کرنے کو تیار نہیں، دوسرے کا کام کر کے سب ہیرو بننا چاہتے ہیں
خیرات کام کا متبادل نہیں ہوتی۔ ہمارے ذہن میں یہ خیال اس وقت سب سے پہلے آتا ہے جب ہم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی ایک تصویر دیکھتے ہیں جس میں وہ معزز چیف جسٹس آف پاکستان کو ڈیم فنڈ کیلئے ایک چیک عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ میں دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ کی ضرورت پر ماہرین کے تجزیوں میں نہیں الجھنا چاہتا۔ میں یہ فرض کر لیتا ہوں کہ یہ ڈیم ہمارے قومی استحکام اور ہماری بقا کیلئے از حد ضروری ہے۔ میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ کیا "انصاف" کی فراہمی بھی ہمارا قومی فریضہ نہیں؟ اگست کے مہینے تک صرف سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد چالیس ہزار تھی جو کہ کل زیر التوا 18 لاکھ کیسز کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ چیف جسٹس اکثر اوقات پاکستان کے ہسپتالوں اور مریضوں کے وارڈز میں بے پناہ رش پر تعمیری تنقید کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ڈاکٹرز "تاریخ پر تاریخ" دینے کے بجائے کم سے کم مریضوں کو ادوایات کے نسخے تو دے ہی دیتے ہیں۔ کسی کو بھی ہمارے عدالتی نظام کی انصاف میں فراہمی پر مکمل ناکامی کو اجاگر کرنے کے بہانے اعلیٰ عدلیہ کی  دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ کیلئے چندہ اکٹھا کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن بہر حال یہ منظرنامہ ہمارے نظام کی اصل منظر کشی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں روزانہ محنت اور دیانتداری سے کام کرنے کا کوئی صلہ نہیں ملتا۔آپ ہر روز وقت پر دفتر آئیں اپنے ملازمت کے فرائض محنت اور ایمانداری سے نبھائیں پھر بھی کوئی آپ کا نام لیکر آپ کو کبھی بھی نہیں سراہے گا۔ داد و تحسین حاصل کرنے کیلئے آپ کو دوسری نوعیت کے ایسے کام کرنا پڑتے ہیں جو آپ کو ہیرو کے طور پر پیش کر سکیں۔

مثلاً اس تصویر میں دوسرے شخص پروفیسر عامر شاہ ہیں جنہوں نے 17 لاکھ روپے کی خطیر رقم کا چیک چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے کیا۔ شاہ صاحب ایک ایسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جس کے طلبہ ان کی نئی پالیسیوں کی بدولت فیسیں بھرنے کیلئے شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ پراگریسو سٹوڈنٹس یونین نے  طلبہ کی فیس میں بے پناہ اضافوں کے پس منظر میں ایک خطیر رقم بطور خیرات دینے کو  گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ایک متنازعہ فیصلہ قرار دیا ہے۔ اس تنظیم کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے مستقل اور وزیٹنگ اساتذہ کو اکثر و بیشتر تنخواہوں کی ادائیگی انتہائی تاخیر سے کی جاتی ہے۔ میری گورنمنٹ کالج لاہور کے کئی طلبہ سے بات ہوئی اور ان تمام طلبہ کا کہنا تھا کہ ٹیوشن اور ہاسٹل فیسوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی  کچھ نئی پالیسیوں کی بدولت طلبہ پر مزید مالی بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔

گورنمنٹ کالج کے طلبہ نے فیسوں کے اضافے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ ان کے مطابق ماضی میں طلبہ تاخیر سے فیس جمع کروانے پر جرمانہ ختم کروانے کیلئے ایک تحریری درخواست بھر کر باآسانی جرمانہ ختم کروا لیتے تھے۔ لیکن اب ایسا کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ نئی پارکنگ فیس بھی لاگو کی جا چکی ہے اور یونیورسٹی اب ڈگری کے حصول کیلئے فارم دینے کی بھی فیس چارج کرتی ہے۔ ذہین طلبہ کیلئے فیس میں کمی کرنے والی سہولت کا  بھی خاتمہ کیا جا چکا ہے۔

جنسی ہراسانی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے علی شیر نے دعویٰ کیا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی نے ابھی تک جنسی ہراسانی کے واقعات سے نمٹنے کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل نہیں دی ہے۔ جنسی ہراسانی کے کیسوں کی تحقیقات  کو مرد اساتذہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اکثر ان شکایات کا ازالہ نہیں کر پاتے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ماضی میں جنسی ہراسانی کے واقعات کے سبب خبروں کا مرکز بن چکی ہے اور کچھ طلبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنسی ہراسانی کا مسئلہ ابھی بھی موجود ہے جس سے درست انداز سے نمٹنے کی صلاحیت انتظامیہ کے پاس موجود نہیں ہے۔

اس کے ساتھ طلبہ نے یہ بھی بتایا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ روز مرہ کی ضروریات کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ علی شیر نے انتہائی تلخ لہجے میں بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو لیٹرینوں میں صابن کی موجودگی کو ضروری بنانے کیلئے درخواست دینی پڑی اور ایک طویل انتظار کے بعد اس درخواست پر عمل در آمد کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران طلبہ اپنے گھروں سے اپنے ساتھ صابن لے کر آتے تھے۔ کیفے ٹیریا میں کھانے پینے کے معیار پر بھی علی شیر نے تحفظات کا اظہار کیا۔

ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ یاد دہانی بہت ضروری ہے کہ ڈیم بہت ضروری ہوتے ہیں لیکن اصلاح اور خیرات سب سے پہلے خود اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستانی حکومت ایک اچھا بجٹ پیش کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور اپنی ترجیحات کو بھی درست سمت میں متعین نہیں کر پائی۔ نتیجتاً اس کا بوجھ عام ٹیکس دہندہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اپنے طلبہ اور اساتذہ کی ضروریات کو نظر انداز کر کے بڑے بڑے سرکاری میگا پراجیکٹس کو فنڈ دینے کیلئے ہنسی خوشی تیار ہیں۔

ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر ایماندارانہ طریقے سے اپنے فرائض نبھانا بے معنی ہو چکا ہے، اور بروقت تنخواہوں اور طلبہ کے مسائل حل کرنے میں بھی کسی کو دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اس سے داد و تحسین نہیں ملتی۔ حالانکہ چھوٹے چھوٹے روزمرہ کے فرائض کو نبھانا اصل ہیروازم ہے اور قوم کی تعیمر میں اس کا ایک کلیدی کردار ہے۔ لیکن انہیں  نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہر کوئی انسان دوست اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ہر کوئی ہیرو بننا چاہتا ہے۔ کوئی بھی اپنی اصل ڈیوٹی یا فرائض کی بجاآوری میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

مصنف پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور بین الاقوامی تعلقات، معاشرتی مسائل، سیاست اور معاشی معاملات پر قلم اٹھاتے ہیں۔