ضمنی انتخابات: لچھن یہی رہے تو تبدیلی کو کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے

ضمنی انتخابات: لچھن یہی رہے تو تبدیلی کو کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے
تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار کو سنبھالنے کے ساتھ ہی عوام کو تبدیلی کا کوئی نہ کوئی دھچکا روز ہی لگ رہا ہے اور عوام بھی بہت انہماک سے تبدیلی کے ان دھچکوں کو برداشت کر رہی تھی، کیونکہ تبدیلی والی سرکار روز کوئی نہ کوئی بم لوگوں پر گرا رہی تھی۔ اٹھارہ اگست کو مسند اقتدار پر بیٹھنے والے عمران خان اور ان کی حکومت نے ایسے ایسے فیصلے کیے جن کے لئے تبدیلی کے حامی بھی تیار نہیں تھے۔

پہلا دھچکا اس وقت لگا جب عالمی مالیاتی ادارے کا وفد پاکستان پہنچا اور ہمارے ہر دل عزیز اور معصوم سے چہرے والے اسد عمر جو اب وزیر خزانہ ہیں نے ان کا استقبال بانہیں کھول کر کیا۔ کہا یہی گیا کہ بس وہ یہاں صرف جائزہ مشن پر آئے ہیں۔ یار لوگوں نے بہت تنقید کی اور کہتے رہ گئے کہ یہ ہمارے لئے مہنگائی کا کوئی نیا پیکج لے کر وارد ہوئے ہیں، پر تبدیلی کے کرتا دھرتاؤں نے سختی سے تردید کی کہ نہ جی نہ، ہم بھلا ان سے کیوں مالی پیکج یا اقتصادی بحالی کا پیکیج لیں گے؟ ہمارے پاس کیا وسائل کی کوئی کمی ہے؟ ہمارا ملک ہر قسم کے وسائل سے ملا مال ہے، ہم یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے، بس ہمیں ذرا قدم جما لینے دیں۔ انہوں نے مخالفین کے صرف سر یا پیر نہیں توڑے کہ آئی ایم ایف سے امداد کا نام کیوں لے رہے ہو، ہم تو بھیک کا کشکول توڑنے آئے ہیں، نہ کہ کشکول ہاتھ میں لیے بھیک مانگنے اقتدار میں کودے۔

وفد اسلام آباد سے کیا روانہ ہوا کہ تبدیلی نے عوام کو دھچکوں پر دھچکے دینے شروع کر دیے۔ پہلا دھچکا گیس کی قیمتوں میں اضافہ، پھر سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ایسا ہوا کہ بیچارے رکشے ٹیکسی والے جن کی گاڑی کا یہ سستا ایندھن تھا، چیخ اٹھے کہ پرانے پاکستان میں سی این جی ستر کی تھی اب یہ نیا پاکستان میں ڈیڑھ سو پر جا پہنچی ہے جو پیٹرول سے بھی مہنگی ہے۔

ابھی ان جھٹکوں سے سنبھلے نہیں تھے کہ ملک کی سٹاک مارکیٹ نے پکارا کہ میں اب تبدیلی والی سرکار کے فیصلوں کا مزید انتظار نہیں کر سکتی، اس نے گرنا شروع کر دیا اور گرتے گرتے اس نے چھوٹے سرمایہ کاروں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ نجانے اب ان کے تن بدن پر کپڑے بھی ہیں یا نہیں، اس کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت مارکیٹ گذشتہ سالوں کی نچلی ترین سطح پر کھڑی ہے، گو کہ کہا یہ جا رہا ہے کہ عالمی منڈی میں بھی کساد بازاری ہے اور امکان اس بات کا ہے کہ مارکیٹ دوبارہ سنبھل جائے گی، لیکن سرمایہ کاروں کے کھربوں اب تک ڈوب چکے ہیں۔

تبدیلی کے جھٹکوں نے روپے کی قدر کو بھی نہ بخشا اور ایک ہی دن میں ڈالر تیرہ روپے مہنگا ہو گیا اور جس سے کہا جا رہا ہے کہ ایک ہزار ارب کے قرضے کا بوجھ اس ناتواں ملک، پر وسائل سے مالا مال قوم پر مزید چڑھ گئے ہیں۔ لیکن عمران خان صاحب جو ملک کے وزیر اعظم ہیں اور قوم کو تبدیلی لا کر دکھانا چاہتے ہیں نے کہا کہ کیا ہوا جو سٹاک مارکیٹ گر گئی اور کیا ہوا جو ڈالر مہنگا اور روپیہ سستہ ہو گیا؟ میں جو ہوں۔ میں آپ کو اس مشکل سے نکال کر دکھاؤں گا۔ ذرا صبر کریں اور تبدیلی کے جھٹکے مزید برداشت کریں۔ خان صاحب کی پریس کانفرنس نے مجھے سقوط ڈھاکہ کا دن یاد دلا دیا جب اس وقت کے صدر یحییٰ خان نے قوم سے خطاب میں کہا کہ کیا ہوا جو ہمیں ایک محاذ پر شکست ہوئی؟ پریس کانفرنس کے بعد اسد عمر ملک سے اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر اور کشکول کو ایلفی لگا کر آئی ایم ایف کے پاس جا پہنچے تاکہ ان سے اقتصادی بحالی کا پیکیج لے کر ملک کو آگے چلائیں۔ حالانکہ تبدیلی والی سرکار آئی ایم ایف سے قرضہ لینا گناہ کبیرہ تصور کیا کرتی تھی پر اس وقت جب وہ خود اپوزیشن میں تھی۔

کرتے کرتے ضمنی انتخابات کا زمانہ آگیا اور یہ وہ وقت تھا جب عوام کے پاس تبدیلی کو سبق سکھانے کا موقع ہاتھ لگنا تھا، اور وہ لگ گیا۔ ابھی کل ہی اتوار کے دن، بڑے دعؤوں کے ساتھ تبدیلی والی سرکار تمام دوسری سیاسی پارٹیوں کے سامنے تن تنہا میدان میں اتری اور مقابلہ کرنے کھڑی ہو گئی۔ اب کی بار عوام نے چند گھنٹوں میں بتا دیا کہ سرکار اگر ہم زرداری کو گھر بھیج سکتے ہیں اور اگر ہم نواز شریف کو گھر کا رستہ دکھا سکتے ہیں، تو خان صاحب آپ کو بھی جھٹکا دے سکتے ہیں۔ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ تحریک انصاف کے خالق عمران خان نے عام انتخابات میں پانچ حلقوں سے انتخاب لڑا اور پانچ سے ہی جیتے۔ ان کو صرف ایک سیٹ رکھنا تھی، اب چار پر ایسے امیدوار کھڑے کیے جو مدمقابل امیدواروں سے کمزور تھے۔ ان میں سے اسلام آباد اور کراچی کی نشستیں جیت لیں پر لاہور کی سب سے اہم ترین سیٹ پر ہمایوں اختر کو نون لیگ کے خواجہ سعد رفیق کے سامنے کھڑا کیا، جس پر تحریکی امیدوار کو شکست کا سامنہ کرنا پڑا۔ اسی طرح بنوں کی سیٹ پر تحریکی امیدوار کو مجلس عمل کے امیدوار کے سامنے ڈھیر ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ قومی اسمبلی کی گیارہ نسشتوں میں سے نون لیگ اور تحریک انصاف نے چار چار نسشتیں جیتیں، جب کہ اے این پی، قاف لیگ، اور متحدہ مجلس عمل نے ایک ایک پر کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی جہاں تحریک انصاف کو ہلکی اکثریت حاصل ہے، وہاں نون لیگ نے مزید چھ سیٹیں حاصل کر لیں جب کہ تیرہ میں سے صرف پانچ نسشتیں تحریک انصاف لے سکی۔ دو آزاد امیدواروں کے ہاتھ لگی ہیں۔

تحریک انصاف کو اپنی ابتدائی بری حکومتی کارکردگی کا خمیازہ عوام کے ہلکے سے سے جھٹکے کی صورت میں دیکھنا پڑا۔ ظاہر ہے جب مہنگائی کا بول بالا ہوگا، انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری اور سفارش میرٹ ہو، پرویز خٹک کے آٹھ افراد اسمبلیوں میں داخل ہو جائیں، باقی ورکر دیکھتے رہ جائیں۔ ہر تحریکی لیڈر اپنی اولاد یا بھانجوں بھتیجوں کو نواز رہا ہوگا تو عوامی غضب تو سامنے آنا ہی تھا۔ سو انہوں نے تبدیلی کو پہلا جھٹکا دے ہی دیا۔ خان صاحب اب بھی وقت ہے، لوگوں کو تبدیلی کی جھلک ہی دکھلا دیں ورنہ کوئی بڑا جھٹکا بھی لگ سکتا ہے۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔