آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے شکایت کی ہے کہ 2 درجن سے زائد سرکاری ادارے آڈٹ کرانے سے انکار کررہے ہیں۔
جس پر سینیٹ کمیٹی نے سرکاری شعبے کے اداروں اور وزارتوں کی جانب سے آئین کے تحت درکار ان کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی پر طویل مزاحمت کے حوالے سے بحث کرنے کا فیصلہ کیا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر طلحٰہ کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، بینکنگ سروسز کارپوریشن، فنانشل انسٹیٹیوشن سیکیور ٹرانزیکشن اور ایگریکلچر لونس پاس بک سے متعلق حکومتی بلز متفقہ طور پر منظور کرلیے۔
کمیٹی نے اپنے گزشتہ اجلاس میں اے جی پی کو ان اداروں کی فہرست فراہم کرنے کا کہا تھا جو اپنے اکاؤنٹس کے آڈٹ کی اجازت نہیں دے رہے کیوں کہ وزارت قانون نے نشاندہی کی تھی کہ ہر وہ روپیہ جو ریاست کی جانب سے ادا کیا گیا ہو آئین کے تحت آڈٹ سے مشروط ہے۔ وزارت قانون کے نمائندے نے اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا کہ پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ (پی ایف ایم) 2019 کے بعد اور یہاں تک کہ آئین کے تحت جہاں بھی سرکاری پیسہ شامل ہے اسے آڈٹ کے لیے اوپن ہونا چاہیے۔ چنانچہ کمیٹی کی ہدایت کے مطابق اے جی پی نے ان اداروں کے بارے میں رپورٹ پیش کی جنہوں نے اپنے اکاؤنٹس کے آڈٹ سے انکار کر دیا ہے۔
اس فہرست میں سب سے اوپر وزارت خزانہ ہے جو قومی خزانے کی نگہبان ہے، دیگر اداروں میں نیشنل بینک پاکستان بھی شامل ہے جو زیادہ تر ریاستی محصولات اور ادائیگیوں کے معاملات دیکھتا ہے۔
ان کے علاوہ وزارت مذہبی امور، وزارت آبی وسائل، پاکستان ریلویسز، پیپلز پرائمری پیلتھ انیشی ایٹو بلوچستان، خیبرپختونخوا آئل اینڈ گیس کمپنی اور کے پی کا لیبر ڈپارٹمنٹ شامل ہے۔
مزید ادارے وزارت دفاعی پیداوار کے ماتحت ڈی ایچ اے کراچی، پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ، وزارت توانائی کے ماتحت پارکو، مری گیس اینڈ مول تل، پی ٹی سی ایل، ٹیلی کام فاؤنڈیشن، پاک- چائنا انویسٹمنٹ کمپنی، پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی، پاک-عمان انویسٹمنٹ کمپنی، سعودی پاک انڈسٹریل اینڈ ایگریکلچر کمپنی، واہ نوبل لمیٹڈ، پاک ایران انویسٹمنٹ کمپنی، پاک ٹیلی کام ایمپلائیز ٹرسٹ اور پاک قطر انویسٹمنٹ لمیٹڈ ہیں۔
وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ اس کا نام اس لیے فہرست میں شامل کیا گیا ہے کیوں کہ متعدد مشترکہ غیر ملکی شیئر ہولڈنگ کمپنیاں مثلاً کویت انویسٹمنٹ کمپنی پاکستان اور غیر ملکی حکومت کے 50/50 فیصد حصص کے ساتھ کام کر رہی ہے جبکہ کوئی بھی کمپنی جس کے کم از کم 51 فیصد مقامی حصص ہوں اسے پبلک لمیٹڈ کمپنی سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنے اخراجات کا آڈٹ اے جی پی سے کروانے کی پابند ہے۔
جس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ کمپنیاں قانون ڈویژن کے ساتھ بیٹھ کر مشاورت کریں تاکہ ان کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ سرکاری کمپنی کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں۔
ساتھ ہی کمیٹی کے چیئرمین نے ہدایت کی کہ اس معاملے کو مکمل اعداد و شمار اور تفصیلات کے ساتھ آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے تاکہ اس مسئلے پر طویل بحث ہو سکے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے تجویز دی کہ ان اداروں کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مشاورت کریں اور پھر کمیٹی کو رپورٹ کریں۔