پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد پھر سے اکھٹے ہو رہے ہیں؟

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد پھر سے اکھٹے ہو رہے ہیں؟
آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں جو شدت پسند روپوش یا سرحد پار افغانستان کی جانب فرار ہو گئے تھے اب ان کے بارے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ ان میں سے چند، قبائلی علاقوں میں کہیں کہیں واپس آ رہے ہیں اور ان کی سرگرمیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔

بی بی سی اردو کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بظاہر پر تشدد واقعات کی ایک نئی لہر دیکھی جا رہی ہے اور اس مہینے میں اب تک تشدد کے چار واقعات پیش آئے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کا جانی نقصان ہوا ہے جس کے بعد  بی بی سی کے مطابق علاقے میں تشویش پائی جاتی ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ دہشتگردی کے حالیہ متشدد واقعات پاک افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل اور اس کے گرد و نواح میں پیش آئے ہیں۔ جبکہ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ ’تازہ ترین واقعہ 14 اپریل کو پیش آیا جب سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں ملنے والی اطلاع پر چھاپہ مارا تو وہاں جوابی کارروائی میں ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح چند روز پہلے دتہ خیل کے قریب درگئی کے مقام پر بھی اسی طرح چھاپہ مارا گیا، جہاں جھڑپ میں ایک سکیورٹی اہلکار اور دو شدت پسند ہلاک ہو گئے‘۔

جبکہ اگر میڈیا رپورٹس کو دیکھا جائے تو اس سے پہلے بھی  ایک فوجی کارروائی میں شمالی وزیرستان اور مہمند ایجنسی میں سات شدت پسند ہلاک کر دیے گئے تھے۔ بظاہر سکیورٹی فورسز نے یہ کارروائیاں شدت پسند تنظیم کے اہلکاروں کی موجودگی کی اطلاعات پر کی تھیں۔

پاکستان میں  دہشت گرد تنظیم کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ایک عرصہ تک ریاست کے ساتھ مزاحم رہی ہے اور اس تنظیم نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں متعدد دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جس میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے گئے۔

اہم بات یہ ہے کہ  تحریک طالبان  اور علاقے میں دیگر دہشت گرد تنظیموں سے رابطے میں رہنے اور انکی ترجمانی کرنے والے  احسان اللہ احسان نے اپریل 2017 میں خود کو سیکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا تھا تھا تاہم وہ حال ہی میں سکیورٹی فورسز کی حراست سے بیوی بچوں سمیت فرار ہو گئے تھے جس حقیقت کا اعتراف کرنے میں حکومت کو کافی وقت لگا تھا۔

ویسے تو آپریشن ضرب عضب کے بعد تحریک طالبان کا شیرازہ بکھر چکا تھا  اور اب طالبان مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو کر منتشر ہو چکے  تھے تاہم اب پھر سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا یہ طالبان پھر سے منظم ہو کر کوئی کارروائیاں کر سکتے ہیں ؟

مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں کہتے ہیں کہ اب اس بات کے امکانات کم ہیں کیوں کہ مالی و جنگی وسائل سمیت انہیں دشمن ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی تذویراتی مدد حاصل کرنے میں بہت دشواری ہے اوران تنظیموں سے وابستہ افراد کے لیے حالات اب سازگار نہیں ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان سے شدت پسند فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے اور وہیں انھوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان طالبان کے لیے کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں جبکہ افغانستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں یہ رہ سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کو افغانستان میں سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں اور یہ سمجھوتے وہاں موجود افغان خفیہ ادارے یا انڈین اداروں سے کرنا پڑیں گے اور وہاں سے پھر کارروائیاں کرنا مشکل ہوتا ہے اور اگر یہ پھر سے منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس میں انھیں کامیابی ملنا اس وقت مشکل نظر آتا ہے۔