' فیض آباد کمیشن رپورٹ کی کوئی وقعت نہیں، یہ رپورٹ مستند ہے نہ قابل بھروسہ'

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ دھرنے کے دو اہم کردار سابق سربراہ آئی ایس آئی فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے بیانات کے بغیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ نامکمل ہے۔ ہم نے کمیشن میں جا کر محسوس کیا کہ غلطی کی۔

' فیض آباد کمیشن رپورٹ کی کوئی وقعت نہیں، یہ رپورٹ مستند ہے نہ قابل بھروسہ'

فیض آباد دھرنے کے دو اہم کردار سابق سربراہ آئی ایس آئی فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ ان کے بیانات کے بغیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ نامکمل ہے۔ فیض آباد کمیشن رپورٹ کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ رپورٹ مستند ہے نہ قابل بھروسہ۔ یہ کہنا تھا  وفاقی وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ آصف کا۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہم نیوز کے پروگرام  ’فیصلہ آپ کا‘ میں گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ فیض آباد دھرنا انکوائری رپورٹ کی کوئی ساکھ نہیں۔ حکومت کو یہ رپورٹ مسترد کردینی چاہیے۔ فیض آباد دھرنا کمیشن ایک مذاق تھا۔

گفتگو کے دوران وزیر دفاع نے کہا کہ دھرنے کے دو اہم کردار سابق سربراہ آئی ایس آئی فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے بیانات کے بغیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ نامکمل ہے۔ ہم نے کمیشن میں جا کر محسوس کیا کہ غلطی کی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ بنانے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ کمیشن کی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔ نہ ہی یہ رپورٹ مستند ہے اور نہ ہی قابلِ بھروسہ قرار دی جاسکتی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل فیض حمید اور جنرل قمر جاوید باجوہ تو انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ صرف مجھ جیسے سیاسی ورکرز کو پیش کیا گیا۔ کمیشن جا کر محسوس ہوا یہاں سنجیدگی نہیں، ہمیں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ اس کو سنجیدہ کارروائی سمجھتے تھے اور کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ جب میں پیش ہوا تو کمیشن کے سربراہ اکیلے بیٹھے تھے۔ کافی دیر مجھ سے گپ شپ کرتے رہے۔ مجھے احساس ہوا کہ پیش کو کر میں نے غلطی کی۔ نہیں پیش ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں جو بات فیض آباد دھرنا کمیشن کے سامنے کرنا چاہتا تھا وہ سننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ لکھ کر سوال دیں تاکہ میں تحریری جواب دوں اور باتیں ریکارڈ پر آ جائیں۔ کمیشن نے آج تک مجھے سوال نہیں بھیجے۔

خواجہ آصف نے بتایاکہ میں نےکمیشن سے کہا جب آپ تیار ہو تو میں سوالوں کے جواب دینے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے مجھ سے کوئی خاص سوال نہیں کیا۔ میں خود ہی جواب در جواب دیتا رہا اور وہ اس پر کچھ مضطرب ہو رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ دھرنا کمیشن والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ انہوں نے اپنا فرض نبھایا یا نہیں۔ 

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف سازشوں میں ایک فیض آباد دھرنا بھی تھا۔ فیض آباد کمیشن کی رپورٹ دو مرکزی کرداروں کو بلائے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔

واضح رہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والی دھرنا کمیشن کی رپورٹ نے سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو کلین چٹ دے دی تھی۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر 3 رکنی انکوائری کمیشن سابق آئی جی سید اخترعلی شاہ کی صدارت میں قائم  تھا۔ سابق آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینیئر افسر خوشحال خان کمیشن کے ارکان تھے۔

انکوائری کمیشن کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف نے جنرل فیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے دستخط سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی اتفاق کیا۔