افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان نے قبضہ کر لیا۔ اس تاریخی شہر نے بڑے بڑے ظالم حکمران دیکھے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں یہاں جو کشت و خوں کا بازار طالبان نے گرم کیا، اس کی مثال لیکن کم ہی ملتی ہے۔
ہم تاریخ کو بھلا کر بار بار بیوقوفیوں کے مرتکب ہو چکے ہیں اور پھر ہوں گے اگر اس سے سبق نہ سیکھا۔ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کی وجوہات کیا تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا۔ وہاں کی طالبان حکومت نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ اور امیرِ طالبان ملا عمر کسی صورت اسامہ کو افغانستان سے نکالنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس سلسلے میں دو واقعات انتہائی اہم ہیں۔
ستمبر 1998 میں سعودی عرب کے انٹیلیجنس چیف کابل میں ملا عمر سے ملے تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان کے انٹیلیجنس سربراہ بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔ معاملہ تھا اسامہ بن لادن کی سعودی عرب واپسی کا۔ سعودی عرب کئی برس قبل اسامہ بن لادن کو اپنے ملک سے نکال باہر کر چکا تھا جس کے بعد یہ کئی سال سوڈان میں رہا، جہاں اس نے بڑے بڑے فارم ہاؤس خرید کر فارمنگ کا کام شروع کر رکھا تھا۔ تاہم، سوڈان حکومت پر سعودی دباؤ کے نتیجے میں سوڈان حکومت نے اسامہ کے تمام اثاثے ضبط کر کے اس کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ بدلے میں سوڈان کو امریکہ کی سخت ناراضگی سے چھٹکارا مل گیا۔ سوڈان کی اسلامی انقلابی حکومت نے دیس نکالا دیا تو افغانستان کی اسلامی انقلابی حکومت نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی۔ سوڈان میں رہتے اسامہ کے متعدد بیانات سعودی عرب کی اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا چکے تھے جس کے تحت سعودی عرب نے اپنی بارڈر سکیورٹی امریکہ کے حوالے کر رکھی تھی۔ افغانستان میں رہتے اسامہ اس سے ایک قدم آگے بڑھے اور سعودی عرب میں موجود امریکی فورسز کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، یہ سازش سعودی عرب کے انٹیلیجنس اداروں نے پکڑ کر ناکام بنا دی۔ اسی کے بعد ترکی الفیصل افغانستان میں ملا عمر سے ملاقات کر کے اسامہ بن لادن کو وہاں سے نکلوانے گئے تھے۔
اس ملاقات میں معاملات انتہائی حد تک بگڑ گئے کیونکہ نہ صرف ملا عمر نے اسامہ کو سعودی عرب کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا بلکہ سعودی شاہی خاندان کو امریکہ کا غلام بھی قرار دے ڈالا۔ سعودی اور پاکستانی انٹیلیجنس چیفس یہاں سے باہر نکل آئے اور اس کے بعد سعودی حکومت کے طالبان حکمران کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم ہو گئے۔
ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہوئے دہشتگرد حملوں کے بعد بھی ملا عمر کو پاکستان کے ذریعے پیغام دیا گیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیں تو افغانستان پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ ملا عمر نے ایک بار پھر انکار کیا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی پیغام بر نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اصل فیصلہ ملا عمر کو ہی کرنا تھا اور انہوں نے ایک بار پھر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ہی امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تھا۔
پاکستان نے افغانستان میں 1975 سے ہی مذہبی تنظیموں کی پشت پناہی کی پالیسی اپنا رکھی تھی کیونکہ کابل میں موجود افغان حکومت ایک طرف پاکستان میں پختونستان کے مسئلے کو ہوا دیتی رہتی تھی، اور دوسری طرف روس کے ساتھ بھی اس کے قریبی تعلقات تھے۔ یہاں روسی حکومت کی مرضی و منشا سے ہی ایک عدد حکومت موجود تھی۔ پاکستان کے لئے فیصلہ آسان تھا۔ پشتون قومیت پرستی کا مقابلہ مذہب کے ذریعے اور روسی اثر و رسوخ کا مقابلہ امریکی طاقت اور پیسے سے کیا جائے۔ یہ پالیسی روس کے ٹوٹنے تک برقرار رہی۔ لیکن اسی دوران پاکستان نے مجاہدین کے مزید گروہ کشمیر کے لئے بھی تیار کرنا شروع کر دیے جو کہ بھارت کو ہراساں کر سکیں اور کشمیر میں جہاد شروع کروا دیا گیا۔
یہ سلسلہ 1999 تک تو بغیر کسی تعطل کے جاری رہا۔ لیکن 1999 میں ہونے والی کارگل جنگ نے صورتحال بدل دی۔ اس سے پہلے پاکستان اور بھارت دونوں ہی 1998 میں اپنی ایٹمی طاقت کا سرِ عام اعلان کر چکے تھے اور اب کارگل جنگ نے امریکہ کو اس خطے میں دوبارہ دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا۔ اس نے نواز شریف حکومت پر مجاہدین کے خلاف ایکشن لینے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ پاکستانی فوج اس وقت تک اپنے بنائے ہوئے ان مجاہدین سے تعلقات خراب کرنے کے لئے تیار نہیں تھی، لہٰذا اس نے نواز شریف کو نکال باہر کیا، امریکہ کی مخالفت بھی مول لی، لیکن اس کے لئے بھارت کا خطرہ مسلسل سر پر منڈلا رہا تھا اور اس سے نمٹنے کے لئے طالبان کو اپنے ساتھ رکھنا لازمی تھا۔
ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد لیکن پاکستان کو آخر کار مجبوراً اپنی سمت تبدیل کرنا پڑی۔ امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنا ہی تھا اور پاکستان اس کا ساتھ نہ دیتا تو پاکستان کا بھی 'تورا بورا' بنا دینے کی دھمکی دی گئی۔ پاکستان نے بھارت اور امریکہ کے درمیان سینڈوچ بن جانے پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کو ترجیح دی لیکن اس نے طالبان سے اپنا تعلق مکمل طور پر منقطع نہیں کیا۔ اس نے طالبان کمانڈرز اور ان کے خاندانوں کو پناہ بھی دیے رکھی۔ ان کے خاندان یہیں پر تھے، جس کا اعتراف متعدد حکومتی شخصیات کر چکی ہیں۔ ملا عمر کراچی ہی کے ایک اسپتال میں آخری دنوں میں زیرِ علاج رہے۔ ملا منصور اختر کوئٹہ کے قریب دہشتگرد حملے میں مارے گئے جب کہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد اور نصیر الدین حقانی کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا۔
ان سب حقائق کو دیکھا جائے تو پاکستان کے حکومتی وزرا، سابق فوجی افسران، صحافیوں کا ایک بڑے گروپ اور عوام کا ایک بڑا حصہ اپنی خوشی کیوں چھپا نہیں پا رہا، سمجھ میں آتا ہے۔ پاکستان نے روزِ اول سے طالبان نامی گھوڑے ہی پر اپنے پیسے لگا رکھے تھے تو اس کی جیت پر سب سے زیادہ خوشی بھی ہمارے پالیسی سازوں کو ہی ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان اسی لئے ان کی فتح کو "غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالنے" سے مشابہت دیتے پائے جاتے ہیں۔
شیریں مزاری امریکہ کو ویتنام میں اس کی شکست یاد دلاتی پائی جاتی ہیں۔
علی محمد خان کہتے ہیں کہ افغان شجاع ہیں اور امریکہ کو استعماری قوت قرار دیتے ہیں۔
زرتاج گل وزیر کا کہنا تھا کہ کرپٹ افغان حکومت کو پتہ چل گیا کہ اس کی پشت پناہ بھارتی حکومت کے پاس اتنی بوتل ہی نہیں تھی کہ اس کا کھڑے ہو کر ساتھ دے سکتا۔ اب بوتل سے ان کی کیا مراد ہے، وہی بتا سکتی ہیں لیکن جذبات انہوں نے پہنچا دیے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب تو قرآنی آیات سے طالبان کو حق ثابت کرنے پر تلے تھے۔
صحافی انصار عباسی نے اپنی خوشی کو بھارت میں بچھی صفِ ماتم کا جواب کہہ کر justify کرنے کی کوشش کی۔
جب کہ عوام کی صورتحال یہ ہے کہ طالبان کے کابل پر قبضے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران پر تنقید کرنے والے ترقی پسندوں کے خلاف خونی لبرلز نمک حرام کا ٹرینڈ چلا رہے تھے۔
یہ خوشیاں لیکن کتنے دن برقرار رہیں گی، کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ سوشل میڈیا پر ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افغان پاکستان بارڈر پر کھڑے پاکستانی فوجیوں کو کچھ طالبان دھمکی دے رہے ہیں کہ اگلی باری تم لوگوں کی ہے۔ یہ ویڈیو درست ہو یا نہ ہو، یہ تو کم از کم طے ہے کہ طالبان ماضی میں پاکستانی فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلتے رہے ہیں۔ اب تو ہم ان پر بھارت کی ایجنٹی کا الزام بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود پارلیمنٹ کو بریفنگ کے دوران پاکستانی پارلیمنٹیرینز کو بتا چکے ہیں کہ وہ افغان اور پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ اگر واقعتاً ایسا ہے تو نور ولی محسود کی حالیہ انٹرویو میں پاکستانی فوج کو دھمکی، داسو میں چینی کارکنان پر حملے اور روز بروز بڑھتی دہشتگردی کی کارروائیوں کو طالبان کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے تو کس کے کھاتے میں ڈالا جائے خاص کر کہ جب تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت بھی افغانستان ہی میں روپوش ہے۔
یہ جشن منانے والے شاید اے پی ایس پشاور کو بھول چکے ہیں جہاں انہی طالبان نے 141 لوگوں کو جن میں سے 132 بچے تھے گولیوں اور بموں سے بھون ڈالے تھے۔ شاید ان کو سوات میں بہنے والا خون بھول گیا ہے یا شاید ان کے نزدیک وہ اتنا ارزاں تھا کہ رزقِ خاک ہونے کا کوئی ملال ہی باقی نہیں رہا۔ انہیں ہزاروں پاکستانی فوجیوں اور ان سے کہیں زیادہ پاکستانی شہریوں کی قربانیاں بھول گئی ہیں۔ انہیں آئے روز درباروں پر ہونے والے حملے، شیعہ مجالس پر ہونے والے خود کش دھماکے، لاہور کراچی اور اسلام آباد کی گلیوں، بازاروں میں ہونے والے حملے، گلشن اقبال پارک لاہور، کوئٹہ، پشاور اور لاہور کے چرچز میں مسیحیوں پر ہونے والے حملے، علامہ سرفراز نعیمی، ڈاکٹر شکیل اوج اور پروفیسر فاروق خان بھول چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یہ اس جشن کی حالت میں ہیں۔ لیکن کیا ہوگا جب کل کو یہی طالبان ایک بار پھر پاکستان اور اس کے شہریوں کو ہدف بنانا شروع کریں گے؟ کیا ہمارے شہری اس وقت اسی تکلیف سے نہ گزریں گے جس سے آج افغان گزر رہے ہیں اور جن کی اس ابتلا پر ہم فتح و نصرت کا اعلان کر رہے ہیں؟