”کسی کو نہیں چھوڑیں گے“، پرویز مشرف کے وکیل کی دھمکیاں

پاکستان کے آئین کو معطل کرنے پر خصوصی عدالت سے موت کی سزا پانے والے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے اپنے موکل کے خلاف فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔


خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف دائر درخواست (مقدمہ)  ہی نہایت فرسودہ اور غلط تھی، اور اس کا مقصد ان کے موکل کو نشانہ بنانا تھا۔


انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس فار آل فورم کے صدر کی حیثیت سے ان کے پاس کافی وسائل ہیں اور وہ ان لوگوں کو قانونی طور پر نہیں چھوڑیں گے اور ان کے خلاف قانونی ایکشن لیں گے۔





تاہم انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ وہ کس کے خلاف ایکشن لیں گے۔


یاد رہے کہ منگل کے روز سنگین غداری کا مقدمہ سننے کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کو 2007 میں آئین کی معطلی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے پاداش میں سزائے موت سنائی۔


جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے متعلق فیصلے پر افواجِ پاکستان کا ردِ عمل

ترجمان افواج پاکستان کے مطابق خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پرویز مشرف نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی ہے۔ انہوں نے ملک کے دفاع کیلئے جنگیں لڑی ہیں۔ پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہوسکتے۔ کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

https://twitter.com/OfficialDGISPR/status/1206924551394930688?s=20

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ خصوصی کورٹ کی تشکیل کیلئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا بنیادی حق نہیں دیا گیا۔ عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی۔ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا ہے کہ افواجِ پاکستان توقع کرتی ہیں کہ پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا۔

پرویز مشرف سنگین غداری کیس: ایمرجنسی کے نفاذ سے سزائے موت تک، کب کیا ہوا؟

سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے اور خود کو ملک کا چیف ایگزیکٹو قرار دینے کے 8 سال بعد 2007 میں ایک نیا بحران پیدا ہوا تھا جب انہوں نے ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اعلیٰ عدالت کے انتہا پسندی سے نمٹنے میں ایگزیکٹوز کے برعکس کام کرنے کو بنیاد بنا کر ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

پرویز مشرف نے 2007 میں 3 نومبر سے 15 دسمبر تک ملک میں آئین معطل رکھا اور چیف جسٹس سمیت متعدد ججز کو گرفتار کروا دیا تھا۔

3 نومبر 2007 میں پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کر دیا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے۔ ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کر دیا گیا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے 'پی ٹی وی' پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو ایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا۔



اس کے بعد ملک میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں نے 28 نومبر، 2007 میں پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا اور وہ فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپ کر ریٹائرڈ ہو گئے۔ 29 نومبر، 2007 میں ریٹائرڈ جنرل نے عوامی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

15 دسمبر، 2007 میں پرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کیا۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز نے تازہ حلف اٹھایا۔

18 اگست، 2008 میں ملک پر 9 سال تک حکمرانی کے بعد پرویز مشرف نے عہدہ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ان کے خلاف مواخذے کے امکانات ختم ہو گئے۔ 22 جولائی، 2009 میں سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو 3 نومبر 2007 کے اقدامات کا دفاع کرنے کے لیے طلب کیا۔

یکم اگست، 2009 میں سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم اور ان کا پی سی او غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔ عدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کے لیے 7 روز کی مہلت بھی دی۔ 6 اگست، 2009 میں پرویز مشرف اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کے بجائے ملک چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔

8 جون، 2010 میں سابق صدر کے سیاسی ساتھیوں نے سیاسی جماعت بنائی جس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) رکھا گیا اور اس کے سربراہ پرویز مشرف تھے۔

22 مارچ، 2013 میں پرویز مشرف کو ملک واپس آنے پر 10 روز کی حفاظتی ضمانت ملی۔ 24 مارچ، 2013 میں خود ساختہ جلا وطن ہونے والے سابق صدر عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئے۔ 27 مارچ 2013 میں سینیئر وکیل اے کے ڈوگر نے انتخابات کے دوران آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کو پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدام کا حوالہ دیا۔

29 مارچ، 2013 میں سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی تاہم حکم دیا کہ وہ بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ فیصلے کا اقتباس پڑھتے ہوئے انہوں نے مؤقف اپنایا کہ آئین معطل کرنے سے مشرف نے سنگین غداری کی ہے۔ 29 مارچ، 2013 میں ہی سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو ان کے خلاف سنگین غداری کیس میں طلب کیا۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا بھی حکم دیا۔

5 اپریل 2013 میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری ایکٹ 1973 کے دفعہ 2 اور 3 کے تحت کیس کی سماعت منظور کی۔ 7 اپریل 2013 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 18 اپریل، 2013 میں پرویز مشرف ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے فرار ہو گئے۔ 19 اپریل، 2013 میں پرویز مشرف نے ججز کو حراست میں لینے کے کیس میں مجسٹریٹ عدالت کے آگے سرنڈر کر دیا۔ اسلام آباد میں ان کے فارم ہاؤس چک شہزاد کو 'سب جیل' قرار دیا گیا۔

30 اپریل، 2013 میں پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف پر قومی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی۔

5 جون، 2013 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے ججز کو حراست میں لینے کے کیس میں پرویز مشرف کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواست سننے سے انکار کردیا اور کہا کہ 'جب میں نے اپریل میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کی تھی تو میرے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلائی گئی تھی'۔

14 جون، 2013 میں اس وقت کے وزیر قانون و انصاف جسٹس زاہد حامد نے 2007 کے ایمرجنسی کیس سے خود کو الگ کر لیا۔ وزیر کا کہنا تھا کہ ان پر پرویز مشرف کے ساتھ زیادتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سابق صدر نے یہ اعلان خود کیا تھا۔ انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کو بھی مسترد کر دیا۔

24 جون، 2013 میں وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔ 18 نومبر، 2013 میں چیف جسٹس افتحار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کا کیس چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل قائم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ 13 نومبر، 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے 5 الزامات عائد کیے۔

12 دسمبر، 2013 میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کا سامنا کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔ 2 جنوری، 2014 میں پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے 'دل کے عارضے' کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا۔ ان کے وارنٹ گرفتاری طبی بنیادوں پر جاری نہیں کیے گئے تھے۔

16 جنوری، 2014 میں خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کو سابق صدر کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے اور رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جس نے پرویز مشرف کی حالت کو 'سنگین' بتایا اور ان کا علاج ان کے مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دی۔

7 فروری، 2014 میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں دوبارہ پیش ہونے کا کہا۔ 18 فروری، 2014 میں 22 سماعتوں میں عدم پیشی کے بعد پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوئے تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی کیونکہ دفاع نے مؤقف اپنایا کہ ان کے خلاف کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے۔

21 فروری، 2014 میں خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوگا۔ 30 مارچ، 2014 میں پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں فرد جرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔

3 اپریل، 2014 میں پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دائر کی تاکہ وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جاسکیں۔ 14 مئی، 2014 میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پرویز مشرف پر غیر قانونی طور پر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے 'ناقابل تلافی' شواہد پیش کیے۔

14 جون، 2014 میں حکومت نے عدالت عظمیٰ میں سندھ ہائی کورٹ کی پرویز مشرف کو بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔ 23 جون، 2014 میں عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات اپیل کے زیر التوا ہونے تک معطل کردیے جس کے تحت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

8 ستمبر، 2014 میں پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے 2007 میں ایمرجنسی عائد کرنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے کردار سے متعلق اہم ثبوت کی طرف نشان دہی کی۔ 15 اکتوبر، 2014 میں سابق صدر کی قانونی ٹیم نے خصوصی عدالت سے پرویز مشرف کے تمام ساتھیوں کا ٹرائل ایک ساتھ کرنے کی درخواست کی۔ 21 نومبر، 2014 میں خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو غداری کیس میں اپنی درخواست دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کی اور چارج شیٹ میں میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل کرنے کا کہا۔

22 دسمبر، 2015 میں پرویز مشرف نے کہا کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر سیاسی و عسکری رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی۔ 14 مارچ، 2016 میں سابق صدر نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ 16 مارچ، 2016 میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔

18 مارچ، 2016 میں پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے۔ 11 مئی، 2016 میں سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔ 16 نومبر، 2016 میں پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو سنگین غداری کیس سے منسلک کر دیا گیا۔ 27 فروری، 2017 میں سابق صدر نے ٹی وی پر بطور تجزیہ کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

29 مارچ، 2018 میں جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کے بعد خصوصی عدالت کا بینچ تحلیل ہو گیا۔ 7 اپریل، 2018 میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مشرف غداری کیس کا بینچ دوبارہ تشکیل دیا۔ 31 مئی، 2018 میں وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔ 7 جون، 2018 میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔ 20 جون، 2018 میں مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے۔

30 جولائی، 2018 میں سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 3 اگست، 2018 میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کے 20 اگست سے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا۔

20 اگست، 2018 میں جان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا۔ 29 اگست، 2018 میں خصوصی عدالت کو بتایا گیا کہ انٹرپول نے مشرف کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

2 اکتوبر، 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو 'بہادر کمانڈو' کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی۔ 19 نومبر، 2018 میں خصوصی عدالت نے مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے مؤکل کو وطن واپسی کے لیے قائل کریں تاکہ سنگین غداری کیس کی کارروائی آگے بڑھے۔ 31 مارچ، 2019 میں سپریم کورٹ نے مشرف کو حکم دیا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔ یکم اپریل، 2019 میں چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر کی آگے بڑھائے۔

11 جون، 2019 میں سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔ 30 جولائی، 2019 میں غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دیا۔ 8 اکتوبر، 2019 میں خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 24 اکتوبر، 2019 میں غداری کیس میں پی ٹی آئی نے پراسیکیوشن ٹیم کو برطرف کر دیا۔

19 نومبر، 2019 میں سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کر لی اور کہا کہ فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔ 23 نومبر، 2019 میں پرویز مشرف نے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ 25 نومبر، 2019 میں کیس نے نیا رخ لیا اور وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں پراسیکیوشن کو سنے بغیر خصوصی عدالت کے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

26 نومبر، 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی۔ 27 نومبر، 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

28 نومبر، 2019 کو خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔ اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوٖظ کرنے کے خلاف دائر درخواست میں وفاقی حکومت کو 3 دسمبر تک مکمل ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا۔

3 دسمبر، 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ خصوصی عدالت اس کے فیصلے کی پابند ہے۔ اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر وفاقی حکومت کو سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔ 3 دسمبر ہی کو پرویز مشرف کو امراض قلب اور فشار خون (بلڈ پریشر) کے حوالے سے پیچیدگیوں کے باعث دبئی کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔

4 دسمبر، 2019 کو پرویز مشرف نے دبئی کے ہسپتال سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'اس کیس میں میری سنوائی نہیں ہورہی، صرف یہی نہیں کہ میری سنوائی نہیں ہورہی بلکہ میرے وکیل سلمان صفدر کو بھی نہیں سن رہے، میری نظر میں بہت زیادتی ہو رہی ہے اور انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا جارہا'۔

5 دسمبر، 2019 کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے۔

10 دسمبر، 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دیا۔ 12 دسمبر، 2019 کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توفیق آصف نے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

16 دسمبر، 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔

آج 17 دسمبر، 2019 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پرویز مشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر فل بینچ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا اور آج ہی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا۔