سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت ایک ایسا کیس چل رہا ہے جس کے نتائج پاکستان اور اس میں رائج جمہوریت کے لئے انتہائی دوررس ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی پٹیشن کے مطابق ان کو ہائی کورٹ سے بطور جج نکالا اس لئے گیا تھا کہ وہ ایک طاقتور ادارے کے اعلیٰ عہدیدار کی بات ماننے سے انکاری تھے۔ یہ طاقتور ادارہ پاکستان کی سب سے طاقتور انٹیلیجنس ایجنسی یعنی ISI تھا۔ اور یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت کے ڈی جی سی ISI میجر جنرل فیض حمید تھے جو بعد ازاں لیفٹننٹ جنرل بنے اور ISI کے سربراہ بھی رہے۔
شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہ جب وہ یہ معاملہ اپنے چیف جسٹس کے پاس لے کر گئے تو ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک کنونشن میں تقریر کر ڈالی جس کی پاداش میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کے خلاف نوٹس لیا اور بغیر مناسب کارروائی کے ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے مس کنڈکٹ کے الزام میں برطرف کر دیا۔
شوکت صدیقی کا دعویٰ ہے کہ جنرل فیض کے ایک ماتحت افسر نے پہلے آ کر ان کے ساتھ بدتہذیبی کی۔ جنرل فیض نے جب ملاقات کی تو پہلے اپنے ماتحت افسر کے رویے کی معافی مانگی اور پھر یہ مطالبہ کیا کہ نواز شریف کے حق میں فیصلہ نہیں آنا چاہیے۔ شوکت صدیقی کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر سزا بڑھتی ہو گی تو بڑھا بھی دوں گا لیکن اگر قانون کے مطابق ناجائز سزا ہو گی تو اسے ختم بھی کر دوں گا۔ جس پر جنرل فیض حمید نے کہا کہ یوں تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
یہ سب انکشافات کرنے کے بعد انہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کر دیا۔ یہ اپنا مقدمہ لے کر سپریم کورٹ آ گئے جہاں یہ گذشتہ کئی برس سے چند سماعتوں کے بعد لٹکا رہا۔ رواں ہفتے سپریم کورٹ نے بالآخر اس کیس کو سماعت کے لئے مقرر کر دیا اور 15 دسمبر بروز جمعہ اس پر سماعت کی گئی تو اسے سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست نشر بھی کیا گیا۔ جہاں یہ اقدام قابلِ ستائش ہے کہ یوٹیوب کے ذریعے کچھ اہم نوعیت کے کیسز کی نشریات عوام دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں، وہیں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دیکھنے والے اس سے ججز اور وکلا کے متعلق بھی ایک رائے قائم کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اس کیس کی سماعت میں جو ایک بات بہت واضح نظر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس حوالے سے ابہام کا شکار ہیں کہ یہ کیس 184(3) کا کیوں ہے۔ وہ بار بار جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور ان کے وکیل حامد خان سے استفسار کرتے رہے کہ یہاں جرم کی وجہ کیا ہے اور جرم کا فائدہ کس کو ہوا؟ یہاں victim یعنی مظلوم تو طے ہے کہ نواز شریف تھے اور ان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے اور اگلے الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش تھی لیکن اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ قاضی صاحب اس حوالے سے بھی مخمصے کا شکار نظر آئے کہ یہ کیس عوامی اہمیت کا حامل ہے بھی یا صرف شوکت صدیقی کو اپنی تنخواہ کی فکر ہے جسے بحال کروانے کے لئے انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دو سوالات کے قاضی صاحب کو ایک ہی دفعہ میں شافی قسم کے جوابات دے دیے جاتے جس کے بعد وہ کچھ شانتی سے بیٹھ کر مقدمے کے حقائق پر سماعت کر پاتے۔ مثال کے طور پر ان کو اگر صاف جواب پہلے ہاتھ ہی دے دیا جاتا کہ دراصل اس سب کا فائدہ جنرل باجوہ کو پہنچا جو یہ ساری دو نمبری نہ ہونے کی صورت میں 3 سال بعد عزت سے گھر چلے جاتے لیکن چونکہ کچھ لوگوں کے نزدیک عزت آنی جانی چیز ہوتی ہے تو انہیں 6 سال عہدے سے چمٹے رہنا زیادہ پسند تھا۔ اگر نواز شریف کے خلاف یہ سازش نہ کی جاتی اور الیکشن سے ان کو باہر نہ رکھا جاتا تو وہ دوبارہ الیکشن جیت جاتے اور جیسے ان سے پہلے راحیل شریف کو توسیع نہیں ملی تھی، باجوہ صاحب کو بھی نہ ملتی۔ عمران خان کو لانا کبھی بھی مقصد نہیں تھا۔ مسئلہ صرف جنرل باجوہ کی توسیع تھی اور اس کی خاطر وہ پورا ملک لگوا گئے داؤ پر۔
قاضی صاحب نے ابھی بھی نوٹس ان کو نہیں کیا، جنرل فیض حمید کو کر دیا ہے۔ حامد خان نے تو جنرل باجوہ کو بھی فریق بنایا تھا۔ چیف صاحب نے لیکن سابقہ چیف کو نوٹس کیا؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عمران خان کا نام لیے بغیر جنرل باجوہ کو beneficiary بتا دیتے، سپریم کورٹ نے وہیں ٹھنڈے ہو جانا تھا۔
رہا یہ سوال کہ 184(3) کا کیس بنتا ہے یا نہیں، یا یہ سوال کہ کیا محض شوکت صدیقی کی تنخواہ بحال کروانا اس کیس کا مقصد ہے، تو قاضی صاحب ہی بتا دیں کہ اگر ایک جنرل آ کر جج کو کہے کہ فلاں سیاست دان کے خلاف فیصلہ دو اور وہ جج انکار کر دے؛ کچھ عرصے میں یہ جج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے والا ہو اور پیشکش موجود ہو کہ آپ کو مزید جلدی چیف جسٹس بنوا دیتے ہیں، لیکن وہ انکار کر دے؛ اس کی بیٹی کا نام لے کر اس کو دھمکیاں دی جائیں مگر وہ انکار کر دے؛ پانچ سال سے اس کیس کی خاطر عدالت سے اپیلیں کرتا پھر رہا ہو کہ اسے سماعت کے لئے مقرر کر دے مگر عدالت دبکی بیٹھی ہو مگر وہ ISI چیف کا نام لے کر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہا ہو، کیا وہ واقعی تنخواہ اور پنشن بحالی کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہوتا ہے؟
اور کیا کوئی مقدمہ اس وقت تک عوامی مفاد کا مقدمہ ہی نہیں ہوگا جب تک کہ اس میں عمران خان کو فریق یا beneficiary نہ بنا لیا جائے؟ کیا یہ عوامی مفاد کا معاملہ کم ہے کہ ایک بوگس الیکشن کروایا گیا اور اس میں ایک سیاسی جماعت کو زبردستی باہر رکھنے کی سبیل کی گئی تا کہ وہ اقتدار میں نہ آ سکے؟ یہ عوامی مفاد کا معاملہ نہیں کہ عوامی ووٹ کی عزت کو یوں سرِعام پامال کیا گیا؟
ان لوگوں کا اختلاف سمجھ میں آتا ہے جو شوکت صدیقی کے احمدی حضرات سے متعلق دیے گئے فیصلے کے خلاف احتجاجاً ان کے حق میں بات نہیں کرتے۔ مگر چیف جسٹس صاحب نے ایسا کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا۔ شوکت صدیقی کے کسی فیصلے پر اختلاف کرنا انسان کا حق ہے لیکن یہ ماننے سے انکار کرنا کہ اس شخص نے اس وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حقائق ایک مجمع عام میں کھڑے ہو کر عوام کے سامنے رکھے جب کوئی باجوہ، فیض اور آصف غفور کا نام لینے کی جرات نہیں کر سکتا تھا، پرتعجب ضرور ہے۔ ہم بائیں بازو یا خود کو لبرل کہلانے والے اگر ایسے خودکش حملے کی ہمت نہ کر پائے اور ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جج نے یہ ہمت کر ڈالی ہے تو اس کے غلط فیصلے پر اپنا اختلاف برقرار رکھتے ہوئے اس کی ہمت کی داد دینے میں بخل کیوں؟
قاضی فائز عیسیٰ سے گذارش ہے کہ عمران خان اس مقدمے میں نہیں پھنستا۔ اس کے لئے آپ ہمت کر کے بیرونی فنڈنگ والا کیس اٹھا لیجیے۔ اس میں کچھ عرب شہزادوں کے نام بھی آئیں گے۔ ذرا شمشیرِ بے نیام ان کے سامنے بھی لہرائیے۔ غریب شوکت صدیقی اپنے کیے کی بہت سزا بھگت چکا۔ اب اس کا کندھا جانے دیجیے۔ اپنے ڈنڈ پر کچھ کر کے دکھائیے۔