بچوں کے اغوا کی صورت میں ایف آئی آر کی تاخیر پر ایک سال سزا کی منظوری

بچوں کے اغوا کی صورت میں ایف آئی آر کی تاخیر پر ایک سال سزا کی منظوری
اسلام آباد: ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں گمشدہ اور اغوا شدہ بچوں کے لئے الرٹ کو بڑھانے، جوابی ردعمل اور بازیابی کے لئے احکامات وضع کرنے کے بل (زارا) 2020 کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ملک میں بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی اور اغوا کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لئے زینب الرٹ بل کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جائے گا۔ فنکشنل کمیٹی نے گذشتہ دو اجلاسوں کے دوران وزارت اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے مختلف تجاویز مرتب کی ہیں۔ حکومت اور وزارت قانون نے اُن سے اتفاق بھی کیا ہے۔ بل میں موجود خامیوں اور سقم کو دور کر کے بل کو مؤثر بنایا جائے گا۔

فنکشنل کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی پہلی آٹھ شقوں کا وزارت انسانی حقوق، وزارت قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل کے ساتھ تفصیلی مشاورت کرتے ہوئے متعدد ترامیم کی منظوری دی۔ فنکشنل کمیٹی نے کثرت رائے سے بل کا اطلاق اسلام آباد کی بجائے پورے ملک کے دائرکار تک لانے کی کثرت رائے منظوری دی۔ ڈی جی زارا کی تقرری کے حوالے سے فنکشنل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ڈی جی کی تقرری کے لئے وزارت انسانی حقوق پبلک اشتہار دے کر وزیراعظم پاکستان کے سامنے نام رکھے گی۔



چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر ہوتی ہے اور پولیس والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ایف آئی آر کس دفعہ کے تحت درج کی جائے۔ اغوا ہونے والے بچے کے حوالے سے ابتدائی چند گھنٹے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ایف آئی اے کی تاخیر سے مجرموں کو فائدہ اور لواحقین کو نقصان ہوتا ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام آباد میں معصوم فرشتہ بچی کے اغوا ہونے پر دو دن تک ایف آئی آر درج نہ ہو سکی اور پولیس کا بچی کے والدین سے رویہ انتہائی نا مناسب تھا۔

ایف آئی آر کے اندارج میں 154کے پراسس کو ٹھیک کرنے سے ملک بھر میں ایف آئی آر بروقت درج ہو سکے گی۔ کمیٹی نے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر برتنے پر کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور 50 ہزار سے لے کر 1 لاکھ تک جرمانہ کرنے کی منظوری دی۔

سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ جب تک سزائیں اور جرمانے شامل نہیں کریں گے پولیس اہلکاروں کا رویہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

فنکشنل کمیٹی نے بچوں کے زیادتی کے کیسز کے لئے خصوصی عدالتوں کے قیام کی منظوری بھی دی جو تین ماہ کے اندر کیسز نمٹانے کی پابند ہوں گی۔ فنکشنل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ زارا کا کردار الرٹ جاری کرنے کے ساتھ اداروں کے مابین تعاون یقینی بنانا ہوگا۔ زارا کی معلومات ویب سائٹ پر انگلش اور اُردو میں پورے ملک میں فوری طور پر پھیلائی جائیں گی۔