آرمی چیف کو زبردستی ڈیڑھ سال اور ان کے عہدے پر نہیں بٹھایا جا سکتا: میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان

آرمی چیف کو زبردستی ڈیڑھ سال اور ان کے عہدے پر نہیں بٹھایا جا سکتا: میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان
دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو جلد انائونس کرنے کی نہ تو ایسی کوئی وجہ ہے، نہ وزیراعظم عمران خان ایسا کوئی کام کرینگے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ''فیصلہ آپ کا'' میں بات کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ایک وقت میں دو آرمی چیف نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں وہ پاکستان آرمی کے ماحول سے واقف نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 6 ماہ قبل ہی کوئی نیا آرمی چیف انائونس ہو جائے، ایسا کام نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی پہلے کبھی ہوا ہے۔ اور نہ ہی ایک وقت میں دو آرمی چیف رہ سکتے ہیں۔

جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے کہا کہ پاکستان آرمی میں کمانڈ تبدیل ہوتی ہے کور کی یا ڈویژن کی تو پرانا کور کمانڈر نئے کے آنے سے 12 گھنٹے پہلے سٹیشن چھوڑ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان آرمی میں کوئی ہینڈنگ ٹیک اوور نہیں ہوتی۔ نئے آرمی چیف جب اپنا عہدہ سنبھالتا تو اس دن کین ہینڈ اوور کرنے کی رسم بھی پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل کیانی کے دور میں پڑی تھی۔



پروگرام کے دوران گفتگو میں جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ نئے آرمی چیف کی انائونسمٹ 15 نومبر سے پہلے ہو سکتی ہے۔ آرمی چیف کو تعینات کرنا وزیراعظم کی صوابدید ہے لیکن ایسا اس مقررہ مدت سے پہلے ہونے نہیں جا رہا۔

اس موقع پر میزبان عاصمہ شیرازی نے جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان سے پوچھا کہ کیا ایکٹینشن ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایکسٹینشن ہونے کو ہو بھی سکتی ہے لیکن اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھر یہ بھی سوال ہے کہ کیا وزیراعظم ایکسٹینشن کریں گے تو کیا آرمی چیف اسے تسلیم کر لیں گے؟ آرمی چیف کو زبردستی ڈیڑھ سال اور ان کے عہدے پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ پہلے ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس عہدے پر 6 سال گزار چکے ہیں۔ اب اگر کوئی انھیں مزید ڈیڑھ سال بٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تو میرے خیال میں ایسا ہونے نہیں جا رہا۔

جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ وقت سے پہلے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیں۔ میرے خیال میں آئینی طور پر تو یہ درست ہوگا لیکن ہوگا یا نہیں، اس کا فیصلہ 15 نومبر سے پہلے نہیں ہوگا۔