انتخابات کے بعد مستقبل کا منظرنامہ مزید دھندلا گیا ہے

اس وقت کئی سوالات منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ اتنا ناقص تھا؟ کیا مسلم لیگ ن اتنی زیادہ پراعتماد تھی کہ انہوں نے اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں غفلت برتی؟ کیا پی ٹی آئی صرف سوشل میڈیا کی جماعت ہے، یا الٹا پڑ گیا؟ جو بھی معاملہ ہو مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔

انتخابات کے بعد مستقبل کا منظرنامہ مزید دھندلا گیا ہے

8 فروری کے عام انتخابات کو ایک ہفتے سے کچھ زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس تحریر کے قلم بند کرتے وقت صورت حال یہ ہے کہ کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ انہوں نے زبردست دباؤ میں انتخابی نتائج میں تبدیلی کی۔ ان کی وائرل ویڈیو کے مطابق انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم ہارنے والوں کو 50 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتنے والوں میں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ اس سے 9 فروری کو بھڑکنے والی آگ میں ایندھن کی ایک اور بالٹی کا اضافہ ہو گیا ہے۔

عام انتخابات سے اگلے روز قوم پچھلی رات ٹیلی وژن چینلوں کی طرف سے دکھائے جانے والے نتائج کے مخالف نتائج سے بیدار ہوئی، مسلم لیگ ن جو پہلے اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پر اعتماد نظر آتی تھی، اب 75 نشستوں کے ساتھ انگشت بدنداں ہے۔ اب وہ قومی اسمبلی میں 54 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی اور 17 نشستوں کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اتحاد میں حکومت بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے دیرینہ حلیف مولانا فضل الرحمان حیرت انگیز طور پر خیبر پختونخوا میں اپنے دیرینہ حریف عمران خان کی پی ٹی آئی کی طرف کوچ کر گئے ہیں۔ وہی مولانا صاحب جو انتخابات سے کچھ دیر قبل تک عمران خان کو 'یہودی ایجنٹ' قرار دیتے رہے تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس بات کا اظہار کر کے قوم کے سر پر حیرت کا ایک اور بم گرایا کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منصوبہ بندی کی تھی۔ تاہم، انہوں نے 24 گھنٹوں کے اندر جزوی طور پر اپنے دعوے کو واپس لے لیا اور جنرل فیض کے ملوث ہونے سے مکمل طور پر انکار کر دیا۔

لیڈی میکبیتھ نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا تھا کہ 'جو کچھ ہو گیا ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا'۔

تو چلیں آگے بڑھتے ہیں، لیکن سوالات منہ کھولے کھڑے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ اتنا ناقص تھا؟ کیا مسلم لیگ ن اتنی زیادہ پراعتماد تھی کہ انہوں نے اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے میں غفلت برتی؟ کیا پی ٹی آئی صرف سوشل میڈیا کی جماعت ہے، یا الٹا پڑ گیا؟ جو بھی معاملہ ہو، صورت حال بدل گئی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلے۔ اس سے پہلے کہ انہیں یہ معلوم ہو، ووٹنگ کا وقت ختم ہو چکا تھا، یعنی تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ بس اب ڈبوں میں بیلٹ پیپرز کی گنتی کا انتظار تھا۔ جب ووٹوں کی گنتی ہوئی، تو ہبڑ دبڑ شروع ہوئی اور سارا کام خراب ہو گیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

نتیجتاً، بات اب یہاں پہنچی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا دونوں انتخابی چوری کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ الجزیرہ نے بھی 'مینڈیٹ چور' جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

مولانا کے حیران کن اقدام نے حکومت سازی کے عمل میں بحران کی ایک اور پرت پیدا کر دی ہے، جبکہ میاں صاحب 9 فروری کے موقع پر عجلت میں 'فتح کی تقریر' کرنے کے بعد عوام کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ افواہوں کے مطابق وہ خود کو کمزور محسوس کر رہے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دھوکہ دیا گیا ہے۔ اوپر سے لاہور سے ان کی منتخب نشست کا مستقبل ابھی تک غیر یقینی ہے۔ دوسری جانب، صدر کے عہدے تک پہنچنے کے راستے میں انتہائی پراعتماد نظر آنے والے زرداری صاحب نے بھی پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ نجم سیٹھی کے مطابق، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ابھی تک ان کی صدارت کی تصدیق نہیں کی گئی۔ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقے اسلام آباد میں حکومت لینے کے منصوبوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ 24 واں آئی ایم ایف پروگرام بڑے بڑے دانتوں کے ساتھ منہ کھولے انتظار کر رہا ہے۔ لہٰذا وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد امیدوار میاں شہباز شریف اس نشست پر براجمان ہونے سے گریزاں ہیں۔ تاہم، فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

یوٹیوب پر میرے ٹاک شو میں ڈاکٹر حسنین جاوید نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو پیچھے نہیں ہٹنے دے گی۔ ماڈل ٹاؤن کیس کی فائلیں زیادہ گہرائی میں دفن نہیں ہیں، اس لیے انہیں وزیر اعظم بن کر کہنا ماننا ہی پڑے گا۔ انہیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کا مشکل کام کرنا ہی پڑے گا۔ صرف یہی نہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کے مشورے کے مطابق جون میں سالانہ بجٹ بھی بنائیں گے۔ اس کے بعد شاید وہ جہاں چاہیں، جانے کے لیے آزاد ہوں۔ ایسے میں مریم نواز کا کیا ہو گا جنہیں پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا اعزاز ملنے جا رہا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن دھاندلی کے زیر التوا مقدمات پر فوری فیصلہ کر دے تو صوبائی اسمبلی میں معمولی اکثریت کے ساتھ وہ کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی؟ اور آئندہ چند ہفتوں میں کسی بھی وقت مطلوبہ تعداد سے کم اکثریت رہ جانے کا امکان ہے تو ایسے میں کیا پڑی ہے وزیر اعلیٰ بننے کی؟ شاید ان کے لیے بھی فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اس عرصے میں اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کا عمل جاری ہونے کا امکان ہے اور شاید عمران خان جون میں بجٹ سے پہلے یا بعد میں منظرنامے پر دوبارہ ابھریں گے۔ یہ ممکن نظر آتا ہے، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں رائے دہندگان کی غیر متوقع تعداد کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کا مقابلہ کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ کار قبل از وقت انتخابات کی توقع کر رہے ہیں۔ اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما، آصف علی زرداری اپنی پارٹی کے لیے جن عہدوں کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ ان کی دور اندیشی کی عکاسی کرتے ہیں جن میں چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چاروں صوبوں کے گورنر شامل ہیں۔ اسمبلی تحلیل ہونے یا حکومت کو ہٹانے کے باوجود وہ اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے۔ انہوں نے شاید شروع سے ہی اس صورت حال کا اندازہ لگا لیا تھا۔ اس منصوبے میں واحد رکاوٹ شاید وہی ہے جس کی طرف سیٹھی صاحب نے اپنے تجزیے میں اشارہ کیا ہے اور وہ ہے زرداری کی اپنی صدارت کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال۔

لہٰذا، آئیے تصور کریں کہ اس موقع پر ہم جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے تو قبل از وقت انتخابات اس سال کے آخر یا اگلے سال کے اوائل میں کرائے جائیں گے۔ پھر مان لیں کہ پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی ہے اور اس ملک کے عوام کی امنگوں کے مطابق حکومت تشکیل دیتی ہے۔ بہت اچھا! لیکن کیا لوگ عمران خان کو صرف وزیر اعظم کی رہائش گاہ میں دیکھنا چاہتے ہیں؟ نہیں۔ وہ سستی بجلی، گیس اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ وہ روزگار کے مواقع اور خوشحالی کے خواہاں ہیں۔ آج پاکستان کی معیشت کہاں کھڑی ہے اور ایک سال کے بعد کہاں ہونے کا اندازہ ہے، کوئی بھی عمران خان اسے راتوں رات ٹھیک نہیں کر سکتا۔ اور ان وزیروں کی صلاحیت کے ساتھ جو ان کے پاس ہیں، کبھی نہیں!

ہو سکتا ہے کہ وہ دل کے بہت اچھے لوگ ہوں، ان کے ارادے بہت صاف ہوں، لیکن وہ بے کار ہیں اور انہوں نے اپنی پچھلی مدت میں یہ ثابت کیا ہے۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ وہی ووٹرز خود کو مایوس محسوس کریں گے، جیسا کہ جارج آرویل کی کتاب 'اینیمل فارم' کے کرداروں نے دیوار پر لکھی ہوئی تحریروں پر محسوس کیا تھا کہ 'تمام جانور برابر ہیں، لیکن کچھ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں'۔ اس موقع پر، میری نظر دھندلا گئی ہے اور میں مزید کچھ نہیں دیکھ سکتا۔

صرف خدا ہی جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔