پاکستان بار کونسل نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا۔
13 جنوری کو لاہور ہائیکورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیرآئینی قرار دیا تھا۔
پاکستان بار کونسل نے لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان کی زیر صدارت اجلاس میں کونسل کے وائس چیئرمین منتخب ہونے والے عابد ساقی ایڈووکیٹ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میڈیا پر اعلانیہ غیراعلانیہ سینسرشپ آزادی اظہار کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے، میڈیا کی آزادی کی جنگ میں ہم میڈیا کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز تعیناتی کے لیے عدلیہ، بار کونسل اور قانون سازوں کے ممبران ہونے چاہئیں اور اس سال وکلا ایسے کسی ایشو پر ہڑتال نہیں کریں گے جس سے عوام کا حق متاثر ہو۔
انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف سزا سنانے والی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کیا۔
یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل ہی غلط تھی۔فل بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔
ہائی کورٹ کے بینچ نے پیر کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے 17 دسمبر 2019 کو جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف پر آئین سے غداری کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت کی تشکیل سے متعلق سمری اور ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔عدالتی معاونت کے لیے آئے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اور معروف وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوسرے روز یعنی جمعے کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس درخواست میں نہ صرف خصوصی عدالت کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا ہے بلکہ اس قانون کو بھی ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے جس کے تحت خصوصی عدالت نے ملزم کی غیر موجودگی میں ٹرائل کے بغیر فیصلہ سنایا۔
برسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں ٹرائل کرنے کا اختیار استعمال کیا جو کہ آئین سے متصادم ہے۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ یہ فیصلے کرنے کا اختیار اس وقت کی وفاقی کابینہ کو تھا۔ لیکن کابینہ نے مشرف کے خلاف اس مقدمے کی منظوری نہیں دی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججوں کو نظر بند کرنے جیسے اقدامات کی وجہ سے آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس کے بعد حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشرف کے خلاف مزید کارروائی کے لیے تین ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت بنانے کی استدعا کی تھی۔
واضح رہے کہ آئین کا آرٹیکل چھ آئین پاکستان توڑنے کو سنگین غداری قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل چھ کی شق ایک کے مطابق ’کوئی بھی شخص جو بزور طاقت، یا بزعم طاقت یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے آئین کو توڑے، اس کی توہین کرے، معطل کرے یا پھرعارضی طور پر ملتوی کرے یا پھر ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے تو ایسا شخص آئین سے سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔‘ اسی آرٹیکل کی شق نمبر دو کے مطابق جو شخص بھی آئین توڑنے کے عمل میں مدد کرے یا اس کے لیے ابھارے یا تعاون کرے تو وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
اس آرٹیکل کی شق دو اے کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور کوئی اور عدالت اس سنگین غداری کے عمل کی توثیق نہیں کرے گی۔ اس آرٹیکل کی شق تین کے مطابق پارلیمنٹ قانون کے مطابق سنگین غداری کی سزا متعین کرے گی۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ میں ان کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت سے فیصلہ کالعدم قرار دینے کی اپیل کی تھی۔