پاکستان میں پلاسٹک بیگز کے استعمال میں تشویشناک حد تک اضافہ

پاکستان میں پلاسٹک بیگز کے استعمال میں تشویشناک حد تک اضافہ
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی پلاسٹک شاپنگ بیگز کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ پلاسٹک بیگز نہ صرف میدانی علاقوں کو خراب کر رہے ہیں بلکہ سمندر میں بھی زہریلا مواد چھوڑ رہے ہیں جو آبی حیات اور زمین کی زرخیزی کو تباہ کر رہے ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق پلاسٹک بیگز کے استعمال میں اضافہ انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں مائیکرو پلاسٹک نہ صرف شامل ہے بلکہ ہر انسان اوسطاً ہر ہفتے پانچ گرام پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک ہر پاکستانی کی غذا کا حصہ بن جاتا ہے۔

پاکستان میں سالانہ فی کس پانچ کلو گرام پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے جبکہ آٹھ ہزار کارخانے پلاسٹک بیگ تیار کر رہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان میں روزانہ پچپن بلین شاپنگ بیگ استعمال کیے جاتے ہیں اور ہر سال ان کے استعمال میں پندرہ فیصد اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں روزمرہ استعمال کی اشیاء پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں جو ہمارے ماحول کو کافی حد تک متاثر کر رہی ہیں۔ اس میں پلاسٹک کے بیگ، کھانے پینے کے ڈسپوزیبل برتن، سوفٹ ڈرنکس کی بوتلیں اور پلاسٹک کے اسٹرا وغیرہ شامل ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء جیسے دودھ، دہی، سالن وغیرہ بھی پلاسٹک کی تھیلیوں میں ہی خرید کر لائے جاتے ہیں۔ پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں میں پولی پروپائلین، نائلون اور پولی ایتھائلین شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ شیمپو، میک اپ کا سامان، شیونگ جیل، پیسٹ اور دیگر اشیاء میں مائیکرو پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے جو انتہائی مضر صحت ہوتا ہے۔

پلاسٹک میں موجود ایک کیمیکل فینول انتہائی خطرناک ہے۔ اس کیمیائی مرکب کے استعمال سے دل اور جگر کے امراض اور خون میں شکر کی مقدار بڑھنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ نیٹ ورک کنزیومر پروٹیکشن کے ڈائریکٹر سے جب جرمن خبر رساں ادارے کے نمائندے نے پوچھا کہ صارفین کی حقوق کے نقطہ نظر سے کون سے اقدامات شہریوں کو پلاسٹک کی اشیاء کے مضر اثرات سے محفوظ بنا سکتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ کچھ تو صارفین کے حقوق ہیں، مگر ان کے کچھ فرائض بھی ہیں۔ حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صارف اس قسم کی چیزیں استعمال کرے جن کے استعمال سے اس کی صحت اور ماحول پر مضر اثرات نہ ہوں۔ دوسری چیز یہ کہ صارفین کی یہ ڈیوٹی بھی ہے کہ وہ دیگر افراد کے ساتھ مل کر جو مضر اثرات والی چیزیں ہیں، ان کے خلاف اجتماعی مہم چلائیں۔ وہ یہ نہ سوچے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ بلکہ اسے تو خود بھی فعال ہونا چاہیے، کیونکہ اس طرح جو ترقی ہو گی، وہ دیرپا نتائج کی حامل ہو گی۔

حکومت اور ماہرین ماحولیات کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ مضر صحت پلاسٹک بیگز کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ کب سے ختم ہوں گے؟ کیسے ختم ہوں گے؟ کوئی باقاعدہ قلیل یا طویل مدتی منصوبہ بندی نظر نہیں آ رہی۔ گورنمنٹ کی طرف سے کچھ وعدے نظر آتے ہیں یا صرف کچھ اعلانات کیے جاتے ہیں، جیسے کہ آج کل پھر شاپنگ بیگز پر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے لیے تیاری کیا کی گئی ہے؟ پابندی مؤثر کیسے ہوگی اور متبادل کیا ہوگا؟ ماہرین کے مطابق ابھی تک تو حکومتی ارادوں کے خدوخال بھی واضح نہیں۔

پاکستان میں سرکاری سطح پر ایسے دعوے بھی کیے جاتے ہیں کہ کچھ شہروں میں پلاسٹک بیگز کا استعمال جرم قرار دیا جا چکا ہے اور ان کی تیاری اور خرید و فروخت پر پچاس ہزار روپے سے لے کر پچاس لاکھ روپے تک جرمانے کے علاوہ تین سال تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔