(نوٹ: یہ کالم ایک ہفتہ پہلے لکھا لیکن اس کو نا قابلِ اشاعت قرار دیا گیا، قارئین خود فیصلہ کریں)
شبر زیدی کی ایف بی آر چیئرمین کے طور پر تعیناتی کی خبر سے ایف بی آر کے بحران میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایف بی آر وفاق پاکستان کا "کماؤ پُتر" ہے۔ جس دن سے کہیں نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کے مقدمات کو غیر جمہوری سیاسی مقدمات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا، اسی دن سے پاکستان کی معیشت پر بُرے اثرات مرتب پڑنا شروع ہوئے جو پہلے سے ہی کمزرو میعشت کا کھرب ہا کھرب روپے کا معاشی نقصان کرنے کے باوجود ابھی تک جاری ہیں۔
ایک تو موجودہ حکومت کے مینڈیٹ پر بہت سے سوالیہ نشانات ہیں، دوسرے ریاست کو غیر موافق خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر تقریباً معاشی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ پھر اسد عمر کی قیادت میں جو معاشی ٹیم سامنے لائی گئی وہ نااہلیت کا ایک مینار ثابت ہوئی۔ سو عوامی مینڈیٹ میں ملاوٹ، بین الاقوامی بائیکاٹ اور اسد عمر کی نااہلی، ان سارے محرکات نے مل کر وفاق کے محصولات کو بُری طرح متاثر کیا اور ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ میں ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملی۔
جس طرح ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے بہت سے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اسی طرح سیاست میں بھی ایک غلط کام کو چھپانے کے لئے بہت سے غلط کام کرنے پڑتے ہیں۔ نواز حکومت میں معیشت ٹھیک چل رہی تھی لیکن ریاستی وسائل کی تقسیم پر جھگڑا شروع ہوا جس پر اسحاق ڈار سے منسوب مشہور زمانہ بیان سامنے آیا کہ کیک کا سائز بڑھے گا تو سب کو زیادہ حصہ بھی ملے گا۔ لیکن اس گولڈن معاشی اصول کو نظر انداز کر کے غیر مرئی طور پر نواز حکومت کے خلاف غیر جمہوری سازشوں کا آغاز ہوا۔ سازشیں تو کامیاب ہو گئیں لیکن ان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کیک کا سائز بڑھنے کی بجائے چھوٹا ہونا شروع ہو گیا ہے جس سے پورے کا پورا سیاسی، معاشی اور قومی سلامتی کا نظام بیٹھ گیا ہے۔
کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ نواز حکومت کے جانے سے کیک کا سائز بڑا ہو جائے گا، شاید یہ حلقے بھی نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن پر کیے گئے مبالغہ پر مبنی پراپیگنڈا کو سچ سجھنے لگے تھے۔ یہیں پرمقتدر حلقوں سے سب سے بڑی بھول ہوئی۔ سیاسی پراپیگنڈا کا ایک اصول ہے کہ اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے مبالغہ کی آخری حد تک جانے کے باوجود فیصلہ سازی کے وقت حقائق کو ہی مد نظر رکھنا چاہیے ورنہ پراپیگنڈا کرنے والے اپنے ہی جھوٹ کو سچ سمجھ کر فیصلوں میں غلطی کر جاتے ہیں۔
پھر نواز شریف نے بھی، جائز طور پر، جاتے جاتے اتنی مزاحمت کی کہ سیاسی عدم استحکام طویل ہوتے ہوتے اس حد تک پہنچ گیا کہ فیصلہ سازوں کے لئے ملکی معیشت کو سنبھالنا ناممکن ہو گیا۔ تیسرا خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں سوائے آسیہ بی بی کے مقدمے کے دیگر بنیادی مسائل میں کوئی خاص تبدیلی نہ کرنے سے اندرونی طور پر لا اینڈ آرڈر اور بیرونی طور پر بین الاقوامی معاشی بائیکاٹ جیسی کیفیت جاری ہے۔
سو بنیادی مسائل جو معیشت اور نتیجتاً ریاستی محصولات کو پھندہ ڈالے کھڑے ہیں ان میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط جن سے عوام کا بھرکس نکل جائے گا، ماننے سے لے کر سٹیٹ بنک آئی ایم ایف کے حوالے کرنے اور ایف بی آر کی باگ ڈور سرمایہ داروں اور بڑے کاروباریوں کے حوالے کرنے تک موجودہ حکومت ایک سے بڑھ کر ایک غلطی کرتی جا رہی ہے۔
شبر زیدی کی چیئرمین ایف بی آر تعیناتی ایک فاش غلطی ہے۔ ایف بی آر وفاق اور عوام کی ایما پر ٹیکس اکٹھا کرتا ہے۔ اس ٹیکس میں بہت بڑا حصہ بڑے سرمایہ داروں اور ان کے کاروبار سے آتا ہے۔ یہ ایک طرح کی جنگ ہوتی ہے جس میں ایف بی آر کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے لیکن سرمایہ داروں کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم ٹیکس دیا جائے۔ سرمایہ داروں کی ٹیم کے کپتان شبر زیدی جیسے ٹیکس بچانے کے ماہرین ہوتے ہیں اور ایف بی آر کے کپتان چیئرمین ایف بی آر ہوتے ہیں۔ شبر زیدی کو ایف بی آر کا کپتان لگانا ایسے ہی ہے جیسے وفاق نے ایف بی آر کی ٹیم سرمایہ داروں کی ٹیم کے کپتان کے حوالے کر دی ہے جس سے ایف بی آر کی ٹیم ساری عمر مقابلہ کرتی آئی ہے۔
اس عمل کیلئے Institutional capture کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر کے افسران میں سخت بے چینی ہے اور اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایسوسی ایشن کے ذریعے اور وزیراعظم اور ان کے وزرا کو اپنے تحفظات کے ذریعے بھی کیا ہے۔ ایف بی آر چیئرمین بن کر شبر زیدی کو ایک بہت بڑے مفادات کے ٹکراؤ یعنی Conflict of interest کا بھی سامنا ہے۔ یعنی کیسے وہ اپنے ساری عمر کے سرمایہ دار کلائنٹس کے مفادات اور ان سے اربوں روپے کے ٹیکس وصول کرنے والے ایف بی آر کے مفادات کا ایک ساتھ تحفظ کر پائیں گے؟
خدشہ ہے کہ وہ اپنی تعیناتی کے دوران اپنے سابقہ اور مستقبل کے ممکنہ کلائنٹس کو بھرپور فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ (ان کے ابتدائی چند احکامات اس رجحان پر مہر ثبت کر رہے ہیں) پھر ان کی تعیناتی اعزازی ہونے نے مزید سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں، اس سلسلے میں انکا اپنا انٹریو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ سنگا پور کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دلیل دے رہے ہیں کہ کسی بھی بڑی کمپنی کے ہیڈ کی تنخواہ جو پاکستان میں کم از کم ساٹھ، ستر لاکھ ماہانہ تک جاتی ہے سے کم پر چیئرمین ایف بی آر لگنے کے مقاصد اپنے یا کسی دوسرے کے مفادات کے لئے پاور کا حصول یا بےایمانی ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت شبر زیدی کی متنازع تعیناتی ختم کر کے ایف بی آر کے کسی بھی سینیئر افسر کو جس قدر جلد چیئرمین لگا دے اتنا ہی بہتر ہو گا۔