سری لنکا میں ایسٹر دھماکوں کے بعد انتہا پسندی کے واقعات میں تیزی آئی ہے جس کا نشانہ سری لنکا میں موجود مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پناہ گزین بھی بن رہے ہیں ، روہنگیا مہاجرین کے علاوہ افغان مہاجرین بھی پولیس اسٹیشنز میں قائم عارضی کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔
ایک ایسے ہی کیمپ میں ایک سو پچاس افراد نے پناہ لے رکھی ہے جس میں 12 سالہ صدف بھی شامل ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ صدف نے موت کے ڈر سے کسی پناہ گزین کیمپ میں قیام کیا ہو، صدف کا خاندان اس سے پہلے افغانستان میں ہولناک لڑائی کے بعد اپنی جان بچا کر سری لنکا میں آگیا تھا ۔
تاہم ایسٹر دھماکوں کےبعد ایک بار پھر مہاجرین زیر عتاب ہیں جس میں کئی ممالک کے افراد شامل ہیں جو سری لنکا کی شہریت کے خواہشمند تھے تاہم موجود حالات میں وہ یہاں پولیس اسٹیشن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
کمیپ میں ایک عیسائی خاندان بھی موجود ہے جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ننھی صدف نے آبدیدہ ہوتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، ہماری زندگی یہاں مشکلات کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں شروع ہونے والے مسلم کش فسادات کے بعد حکومت نے شمال مغربی علاقے کے کئی اضلاع میں کرفیو نافذ کردیا تھا جب کہ ان علاقوں میں افواہوں کی روک تھام کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ایسٹر کے موقع پر چرچوں اور ہوٹلوں میں خود کش حملوں میں 250 افراد کی ہلاکت کے بعد مسلمان آبادیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔