کولمبو: ڈان کے مطابق سری لنکا میں بم حملوں کی تحقیقات جاری ہیں جس کے دوران سات پاکستانیوں کو بھی حراست میں لیا گیا تاہم دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کو ویزے کی مدت پوری ہو جانے کے بعد بھی قیام کرنے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
دوسری جانب سری لنکا میں حملوں کے بعد مسلمان کمیونٹی کو شدید مسائل درپیش ہیں، مقامی عیسائی آبادی کی جانب مسلمانوں کو درپیش خدشات کے باعث کئی خاندان نقل مکانی کر رہے ہیں۔
دریں اثناء سری لنکا کی پولیس نے بتایا ہے کہ نیگومبو کے مقامی افراد کی جانب سے بے شمار فون کالز موصول ہوئی ہیں جس میں پاکستانی شہریوں پر شبے کا اظہار کیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار ہیراتھ سیسیلا کمارا کے مطابق شکایات کے پیش نظر انہیں مشتبہ افراد کے گھروں کی تلاشی لینا ہوگی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کے روزمتعدد پاکستانی مسلمان باشندے مقامی لوگوں کی جانب سے جوابی کارروائی کے خوف کی وجہ سے نیگومبو نامی شہر چھوڑ چکے ہیں۔ پولیس اور کمیونٹی رہنماؤں نے بسوں کے ذریعے ان افراد کو محفوظ مقامات تک منتقل کر دیا ہے۔
ایک پاکستانی عدنان علی نے روئٹرز کو بتایا کہ بم دھماکوں کے بعد مقامی لوگوں کی جانب سے ان کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ علی کے بقول، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں گے۔‘‘
سری لنکا میں اکیس اپریل کو گرجا گھروں اور ہوٹل میں کیے گئے چھ دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 359 افراد کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ چرچ کے رہنما سمجھتے ہیں کہ کولمبو کے نواحی علاقے نیگومبو میں واقع سینٹ سباستیان گرجا گھر میں ہونے والے دو دھماکوں میں ہلاک شدگان کی تعداد دو سو تک پہنچ سکتی ہے۔
علاوہ ازیں جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سری لنکا میں ایسٹر کے تہوار پر کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔
اس سے قبل سری لنکا کی حکومت نے گذشتہ اتوار کو ملک میں ہونے والے خودکش حملوں کے بارے میں خفیہ اطلاعات کو نظرانداز کیے جانے کا اعتراف کیا ہے۔سری لنکا کی پارلیمان کو بتایا گیا ہے کہ اس ماہ کے آغاز میں ان حملوں کے بارے میں انڈیا کی جانب سے فراہم کردہ انٹیلیجنس تنبیہ کو حکام نے درست انداز میں آگے نہیں پہنچایا۔ملک کے صدر میتھریپالا سریسینا نے اس سلسلے میں سیکریٹری دفاع اور پولیس کے سربراہ کو برخاست بھی کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ سری لنکا کی مجموعی آبادی میں اکثریت شہریوں کا تعلق بدھ مت سے ہے تاہم وہاں ہندوؤں، مسلم اور مسیحی اقلیتیں بھی آباد ہیں۔ واضح رہے ان واقعات سے قبل سری لنکن مسیحی برادری عموماﹰ اس جزیرے کے سیاسی، نسلی اور مذہبی کشیدگیوں سے کنارہ کشی ہی اختیار کرتی تھی۔ نیوگومبو کے ایک پادری جوڈے تھوماس کے مطابق یہاں مسلمان اور مسیحی ہمیشہ پر امن انداز میں ساتھ رہتے تھے لیکن اب حالات جس نوعیت پر پہنچ چکے ہیں اس کو سنبھالنا مشکل ہے۔