'ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ پاکستان اتنا پرجوش کیوں ہے، حکومتیں اکثر کوشش کرتی ہیں کہ اپنے مخالفین کی تعداد کو کم کریں لیکن یہاں تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسا پاکستان اپنے دشمنوں میں اضافہ کر رہا ہے، مہاجرین کو افغانستان تو بھیجا جا رہا ہے لیکن طالبان حکومت سے پہلے سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے جبکہ پناہ گزینوں کو ملک سے نکلنے کے لیے مہلت بھی انتہائی مختصر دی گئی ہے جس سے صاف لگ رہا ہے کہ اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس سے الٹا حکومت پاکستان کا نقصان ہی ہو گا'۔
یہ الفاظ ہیں استاد اللہ میر میاں خیل کے جو پختونخوا کے شہر کوہاٹ میں گھمگول افغان مہاجر کیمپ کے ایک سرکردہ رہنما اور سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے حکومت پاکستان کی طرف سے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو بے دخل کئے جانے کا اعلان کیا گیا ہے اس کے بعد سے پاکستان بھر میں مقیم افغان شہریوں میں سخت ناراضگی اور مایوسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن اب ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کا امکان ہے، کوہاٹ میں بہت سارے ایسے افغان خاندان مقیم ہیں جو افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد یہاں فقط اس وجہ سے منتقل ہوئے تا کہ اپنے بچوں کو یہاں پڑھا سکیں کیونکہ طالبان حکومت نے گذشتہ دو سالوں سے لڑکیوں کی ہر قسم کی تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن اب ان کو یہاں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے'۔
ان کے بقول افغانستان سے آئے ہوئے ان بچوں کو اگر دوبارہ سے واپس افغانستان بھیجا گیا تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے ان کو پھر سے تاریکیوں میں دھکیلنا ہو۔
43 سالہ استاد اللہ میر کا تعلق افغانستان کے صوبہ کابل کے علاقہ سروبی سے ہے۔ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ہے اور اس کے بعد سے وہ خاندان سمیت یہاں مقیم ہیں۔
استاد اللہ میر افغان پناہ گزینوں کے رہنما کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن اور لڑکیوں کی تعلیم کے زبردست حامی بھی بتائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کوہاٹ میں خیراتی اداروں کے تعاون سے پناہ گزین خواتین کے لیے سلائی کڑھائی کے مراکز بھی کھول رکھے ہیں جہاں افغان خواتین مختلف ہنر سیکھ رہی ہیں۔
اللہ میر میاں خیل نے مزید بتایا کہ پاکستان اور افغانستان دو نہایت قریبی پڑوسی ممالک ہیں جنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے ان کے درمیان سیاسی اختلاف کا خمیازہ اب دونوں ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ان کے مطابق یہاں ملک کے مختلف صوبوں میں ہزاروں افغان پناہ گزین کاروبار کرتے ہیں جو پاکستانی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں لیکن اگر ان کے کاروبار بند کئے گئے تو اس سے یہاں کے لوگ اور پاکستان کی تباہ حال معیشت بھی متاثر ہو گی۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین یکم نومبر تک ملک سے نکل جائیں ورنہ انہیں زبردستی بے دخل کر دیا جائے گا۔
یہ فیصلہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سر براہی میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس میں فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی تھی۔
پشاور کے بورڈ بازار کے قریب مقیم ایک افغان شہری نقیب اللہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان باہمی چپقلش اور سیاسی اختلاف کا نشانہ اب بیچارے عوام بن رہے ہیں۔
ان کے بقول 'مجھے تو یہ سب ڈرامہ لگ رہا ہے کیونکہ اب افغانستان میں سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہے اور یہ وہ موسم ہے جس میں کوئی افغانستان جاتا نہیں بلکہ سرد موسم کی وجہ سے وہاں سے بیش تر لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں لہٰذا یہ عمل ناکامی سے دوچار ہو گا'۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی امداد کے حصول کے لیے بھی 'پناہ گزینوں' کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا یہ ایک وقتی حکم بھی ہو سکتا ہے جو شاید کچھ عرصے کے بعد ختم ہو جائے اور اس طرح ایک مرتبہ پھر سے معاملہ رفع دفع ہو جائے۔
ان کے مطابق 'دنیا میں کبھی اس طرح نہیں ہوتا کہ کوئی ملک قریباً 40 لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی قسمت کا فیصلہ اپنے طور پر خود کر لے اور افغانستان جہاں مہاجرین کو بھیجا جا رہا ہو وہاں کی حکومت کو اعتماد میں ہی نہ لیا جائے۔ میرے خیال میں اتنے بڑے بڑے حساس معاملات اکیلا کوئی ملک طے نہیں کر سکتا، اس میں دوسرے ملک کی مرضی اور مشورہ ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس ضمن میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کے اعلان کا ہدف پناہ گزینوں کی واپسی نہیں بلکہ کچھ اور ہے'۔
پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق پاکستان میں اس وقت کل افغان پناہ گزینوں کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس میں رجسٹرڈ اور قانونی افغان شہری 14 لاکھ کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں۔ باقی ماندہ تمام پناہ گزین غیر رجسٹرڈ سمجھے جاتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں میں سے 8 لاکھ کے قریب وہ افغان شہری شامل ہیں جو 15 اگست 2021 کو طالبان کی طرف سے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی رہنما اور دو کتابوں کے مصنف ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ پختونخوا اور بلوچستان میں افغان پناہ گزینوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن اگر یہ اپنا سرمایہ اٹھا لیتے ہیں تو اس سے یقینی طور پر پاکستان کی تباہ حال معیشت کو ایک اور دھچکا لگ سکتا ہے۔
ان کے بقول 'افغان شہریوں کو نکالنے کے لیے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ ملک میں دہشت گردی ہے۔ حالانکہ ان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتہاپسندی تو غلط افغان پالیسی کی وجہ سے بڑھی ہے۔ پالیسی پارلمینٹ بناتی ہے لیکن یہاں یہ کام کوئی اور کر رہا ہے جس کا اس کام سے کوئی تعلق بنتا بھی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری مقتدرہ کی یہ سوچ رہی ہے کہ افغانستان پر کسی طریقے سے قبضہ کر کے اسے اپنے زیر تسلط لے آئے لیکن اس سوچ کے پہلے بھی انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوئے اور آئندہ بھی ہوں گے'۔
ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں، توڑتے نہیں۔ وہ تجارت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سہولت دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے یہاں دشمنیاں پنپ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے امارت اسلامی کی حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان سے مہاجرین کو نکالا جائے یا ان کو مشکل میں ڈالا جائے کیونکہ طالبان کی حکومت ووٹ کے زور پر نہیں آئی بلکہ انہوں نے تو زبردستی کابل کے تخت پر قبضہ کیا ہوا ہے لہٰذا یہاں بھی پاکستان کی پالیسی ناکام دکھائی دے رہی ہے۔
ادھر حکومت پاکستان کی طرف سے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو یکم نومبر تک ملک سے بے دخل کئے جانے کے فیصلے پر طالبان حکومت کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے اور اس حوالے سے انہیں اپنے پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں۔ جب تک مہاجرین اپنی مرضی اور اطمینان سے پاکستان سے نہیں نکلتے، پاکستان کو برداشت سے کام لینا چاہئیے۔
کابل میں موجود سینیئر افغان صحافی اسماعیل عندلیب کا کہنا ہے کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ پاکستان افغان پناہ گزینوں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے تاکہ افغانستان میں انہیں ایک متحرک کردار دیا جائے لیکن شاید اسے یہ کردار نہیں دیا جا رہا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان معاملات جس طرح جا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کا بڑا قریبی تعلق ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اختلافی معاملات باہمی گفت و شنید اور مذاکرات سے طے ہونے چاہئیں جس میں دونوں کا فائدہ ہے۔
پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد سرحد کے اس پار دو سرحدی صوبوں پختونخوا اور بلوچستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے حملوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ اختر حیات خان نے ایک حالیہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے 70 فیصد دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہری ملوث رہے ہیں۔
دریں اثناء اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین ( یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر آفریدی نے نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان سے اپیل کی کہ وہ ان تمام کمزور افغانوں کا تحفظ جاری رکھے جو ملک میں حفاظت کے خواہاں ہیں اور افغانستان واپس جانے پر ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے انسانی حقوق کے متعدد چیلنجوں کے ساتھ ایک شدید انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے منصوبوں کے ان تمام لوگوں کے لیے سنگین مضمرات ہوں گے جنہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور انہیں افغانستان واپسی پر تحفظ کے سنگین خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ترجمان کے بقول 'ہم ملکی پالیسیوں پر حکومت کے خودمختار استحقاق، اپنی سرزمین پر آبادی کو منظم کرنے کی ضرورت، اور عوامی تحفظ اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اس کی ذمہ داریوں کو تسلیم کرتے ہیں'۔
قیصر آفریدی نے کہا کہ یو این ایچ سی آر کا پاکستان کے ساتھ مضبوط تعاون رہا ہے اور ان کا ادارہ غیر رجسٹرڈ افغانوں کے انتظام اور رجسٹریشن کے لیے ایک طریقہ کار تیار کرنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ تمام تر چیلنجوں کے باوجود یو این ایچ سی آر چار دہائیوں سے زائد عرصے سے پناہ گزینوں کے لیے پاکستان کی فراخدلانہ مہمان نوازی کو سراہتا ہے۔