دو فینز کی ایک کہانی۔۔۔!

دو فینز کی ایک کہانی۔۔۔!
اسے بچین سے ہی بولتی تصویریں بہت بھاتی تھیں، فلم دیکھنا اس کا جنون تھا اس کے بچپن کا عہد وی سی آر کے دور کا تھا جب بالی وڈ کی ہر فلم جمعہ کو کسی بھی ویڈیو سنٹر پر ویڈیو کیسٹ کی صورت میں مل جایا کرتی جہاں وہ اپنے من پسند اداکار متھن چکرورتی اور امیتابھ بچن کی فلموں کو دس روپے کے کرایہ پر لا کر دیکھا کرتا تھا ،جس ملک میں وہ رہتا تھا وہاں کی فلمی صنعت بالی وڈ کے مدمقابل نہیں ٹھہر سکتی تھی بولی وڈ کی فلموں کو سنیما گھروں تک رسائی حاصل نہیں تھی لہذا وہ سنیما سکرین کی محبت کو دل میں دبائے صرف وی سی آر پر ہی فلمیں دیکھتا تھا۔

ویسے بھی اس وقت اس کے ملک میں ایک بدشکل اور برے ادکار کا راج تھا جس کی پنجابی فلموں کو صرف ایک مخصوص طبقہ ہی دیکھتا تھا، پڑھے لکھوں نے وسیے ہی سنیما گھروں میں جانا چھوڑ دیا تھا، ایسے میں ایک بہت ہی خوبرو فلمی ہیرو کی آمد ہوتی ہے جو اس ملک کی بولتی تصویروں میں ایک خواشگور اضافے کا باعث بن جاتا ہے ،یوں سنیما سکرین کی اسکے دل میں دبی محبت بیدار ہو جاتی ہے ،اس لئے وہ باقاعدگی سے سنیما گھر جانا شروع کر دیتا ہے۔

اب اسکے دل میں ایک اور خواہش بیدار ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس پسندیدہ خوبرو ہیرو سے ملاقات کرے، وہ اسکے گھر کو تلاش کر لیتا ہے اور گھنٹوں اسکے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر انتظار کرتا ہے، کبھی تو اس کا محبوب ہیرو باہر نکلے گا مگر ایسا نہیں ہوتا، ایک روز وہ اپنے دوست بھائی کے ساتھ اس خوبرو ہیرو کے گھر کے سامنے کھڑا ہوتا ہے کہ اچانک گیٹ کھل جاتا ہے، اسے اپنے ہیرو کی جھلک نظر آتی ہے وہ دیوانہ وار اس کا نام پکار کر گیٹ کی طرف بھاگتا ہے، اچانک کہیں سے ایک دیو ہیکل کتا اس پر بھونکنے لگ جاتا ہے، وہ فین بدحواسی کے عالم میں گیٹ سے باہر آجاتا ہے، اس کے دل میں یہ دکھ مہینوں رہتا ہے کہ اگر اسکا پسندیدہ خوبرو ہیرو چاہتا تو کتے کو روک کر اپنے فین سے مل سکتا ہے ،برسوں گزر جاتے ہیں وہ فین صحافت و ادب کے دہشت میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنے اس من پسند اداکار اور دوسرے ادکاروں پر مضامین لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور سچے ناقد کی طرح اپنے من پسند اداکار کی تعریف اور تنقیدی مضامین لکھے جاتا ہے۔

ادھر اس خوبرو ہیرو جو اب ایک منجھا ہوا ادکار بن چکا ہوتا ہے اسے اپنے وطن کے سیاست دانوں سے نفرت ہو جاتی ہے، وہ ان کی بدعنوانیاں کے باعث اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، ہیرو کو کوچہ سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی مگر ایک یونانی اساطیر شہرت والا ایک کھلاڑی جب سیاست کے گند میں کودتا ہے تو وہ ہیرو اس کھلاڑی کا فین بن کر اس کو شوشل میڈیا پر خوب سپورٹ کرتا ہے چونکہ وہ ہیرو خود ایک محب وطن انسان ہے اس لیے وہ اس یونانی اساطیری شہرت والے کھلاڑی جو اب وزیراعظم بن جاتا اور اسکے دامن پر بدعنوانی کی ایک بھی بوند نہیں ہوتی ،ییرو اس کو بہت سپوٹ کرنا شروع کر دیتا ہے۔

ایک وقت اس کھلاڑی کی حکومت کو روایتی بدعنوان سیاست دان سازشوں سے ختم کرتے ہیں تو وہ کھلاڑی عوام میں آجاتا ہے ایک ٹی وی چینل پر وہ ہیرو اس کھلاڑی سیاست دان کا انٹرویو کرتا ہے جو بہت پسند کیا جاتا ہے مگر اس کھلاڑی و سیاست دان کی ایک نجی ویڈیو لیک ہو جاتی ہے جس میں وہ اس ہیرو کے انٹرویو کے بارے ایک منفی بات کہ دیتا ہے ،جبکہ جب وہ کھلاڑی سیاست دان اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اس ہیرو کو ملاقات کے لئے ایوان وزیراعظم بلا چکا تھا ،ییرو کے دل پر یہ بات لگ جاتی ہے اور کئی دنوں تک اس کا ٹویٹر خاموش رہتا ہے مگر ایک دن وہ پھر ٹویٹر پر اپنے من پسند کھلاڑی سیاست دان کی حمایت میں ٹویٹ کر کے اپنے سچے محب وطن ہونے کا ثبوت دیتا ہے ،،،یہ فین دو ہیں مگر کہانی ایک ہی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔