بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل میں فراہم کردہ غیر معمولی سہولیات پر پنجاب کی جیلوں میں اسیر دیگر قیدیوں کی جانب سے آئی جی جیل خانہ جات کو دی گئی درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عمران خان کو حاصل مراعات جیل قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ اگر عالتوں کے حکم پر عمران خان کو یہ سب سہولیات دی جا رہی ہیں تو تمام قیدیوں کو بانی پی ٹی آئی جیسی سہولیات فراہم کی جائیں۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان گذشتہ ایک برس سے پاکستان کے قانون اور احتسابی عمل کی دھجیاں اڑا رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہماری عدلیہ کی جانب سے انہیں خوش کرنے کیلئے قانون اور آئین کی خلاف ورزی کو بھی معمول کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ اب بانی پی ٹی آئی تک محدود نہیں رہا بلکہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید دیگر مجرمان نے بھی اپنی سزا کو ناانصافی کا نام دینا شروع کر دیا ہے۔
پنجاب کی جیلوں میں قید مجرمان کی جانب سے آئی جی جیل خانہ جات کو خط موصول ہوا جس میں انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں حاصل مراعات اور سہولیات پر توجہ دلائی اور اپنے لیے بھی ایسی ہی سہولیات کا مطالبہ کر دیا۔
قیدیوں نے آئی جی جیل خانہ جات کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ کورٹ کے حکم کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بے شمار سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جبکہ حقیقتاً یہ سب پریزن رولز 1978 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ خط میں بانی پی ٹی آئی کو ملنے والی جن مراعات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں؛
پاکستان جیل قوانین 1978 کے مطابق 'اعلیٰ درجے کے قیدیوں کو بھی ایک ہفتے میں دو ملاقاتوں کی اجازت دی جا سکتی ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حکم ملنے کے بعد بانی پی ٹی آئی کو ایک دن میں چھ سے بھی زائد ملاقاتیں کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ وکلا کے ساتھ ملاقاتیں ان چھ کے علاوہ ہیں'۔
انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو ان کے سیاسی مشیروں اور ساتھیوں سے بھی ملاقات کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ 'جیل قوانین کی شق نمبر 544 اور 556 کے مطابق قیدیوں کو محض خاندان کے افراد سے ملاقات کا حق حاصل ہے'۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کورٹ کے حکم کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو جیل میں ورزش کرنے کیلئے مخصوص سائیکل بھی فراہم کی گئی ہے جو کہ جیل کے قوانین کے عین برعکس ہے اور دیگر قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی واضح مثال ہے۔
کورٹ کی جانب سے سینئر سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل اڈیالہ کو حکم دیا گیا کہ گرمیوں کے موسم میں بانی پی ٹی آئی کے آرام کا خاص خیال رکھا جائے اور انہیں ریفریجریٹر اور اضافی بجلی بھی فراہم کی جائے جبکہ 'شق نمبر261 قیدیوں کو ایسی تمام اشیا کی فراہمی کی ممانعت کرتی ہے'۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کو آن لائن میٹنگ کرنے کی بھی اجازت حاصل ہے جو کہ جیل قانون کی شق نمبر 551 اور 556 کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی کی طبیعت ناساز ہونے پر ان کے علاج کیلئے ڈاکٹر عاصم یوسف کو خصوصی طور پر بلایا گیا اور بشریٰ بی بی کو علاج کیلئے شفاء انٹرنیشنل ہسپتال لے جایا گیا۔ 'شق نمبر 197 کے مطابق یہ اجازت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب جیل کے ہسپتال میں مطلوبہ سہولیات دستیاب نہ ہوں'، جبکہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے معاملے میں ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
اڈیالہ جیل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ اور جیل انتظامیہ کی جانب سے عدالتوں کو بارہا مطلع کیا جا چکا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ان سب سہولیات اور مراعات کی فراہمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
پنجاب کی جیلوں میں 37 ہزار قیدیوں کی گنجائش ہونے کے باوجود پہلے ہی ان میں 63 ہزار قیدی رکھے گئے ہیں۔ اگر ان سب نے بھی ایسے مطالبات شروع کر دیے تو انتظامیہ کیلئے سنگین مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور امن کی صورت حال بھی شدید متاثر ہو گی۔
بے شمار قیدیوں کی جانب سے آئی جی جیل خانہ جات کو درخواستیں موصول ہو رہی ہیں جن میں انہیں بھی بانی پی ٹی آئی جیسی مراعات دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن مشکلات میں گھری معیشت میں ایسی کسی کارروائی کی گنجائش نہیں اور اسی لیے آئی جی جیل خانہ جات بھی کورٹس سے بانی پی ٹی آئی کے متعلق اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی درخواست کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قانون اور انصاف کے دعوے دار کب تک آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محض ایک انسان کو خوش کرتے رہیں گے اور کیا بانی پی ٹی آئی کو خود اس بات کا ادراک ہے کہ اپنی انتقامی کارروائی کی آڑ میں انہوں نے جیسے اپوزیشن جماعتوں کو اذیت سے گزارا تھا تو آج آخر قانون کو توڑ موڑ کر اپنے لیے فوائد کیوں حاصل کر رہے ہیں؟