سیاسی تحاریک رجحان سازی کرتی ہیں اور ہواؤں کے رخ موڑ دیتی ہیں۔ معجزوں کا ظہور ہوتا ہے اور نئی قیادتیں جنم لیتی ہیں۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا جائزہ لیں تو اس امرپر سوچنا ضروری ہے کہ پی ڈی ایم کی بنیاد کیوں اور کن وجوہات پر رکھی گئی ہے۔ اپوزیشن کا کردار کیا ہوتا ہے؟ جمہوریت کیا ہے؟ سیاست کے مقاصد کیا ہیں؟ حکومت گرانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟
اگر پی ڈی ایم کی بنیاد اس وجہ سے رکھی گئی ہے کہ حکومت نااہل ہے۔ وعدے پورے نہیں کررہی ہے۔نئے انتخابات کروا کراہل افراد کو منتخب کرنے کا موقع فراہم کیا جائےجو کاروبار حکومت عوامی امنگوں کے مطابق چلا سکیں تو یہ اپوزیشن جماعتوں کو زیب نہیں دیتا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا ماضی بھی یہی ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں ماضی میں آپس میں برسرپیکار رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کی الزام تراشی ان سب کی سیاست رہی ہے۔ مقتدرہ کے اشاروں پر یہ بھی ناچا کرتے تھے۔
اپوزیشن کا کردار حکومت گرانا نہیں بلکہ پارلیمان اور پارلیمان کے باہر حکومت کوانتخابی وعدے یاد کرانا اور پارلیمان میں قانون سازی کرانا ہے۔ کسان اتحاد اور لیڈیز ہیلتھ ورکز کے مظاہروں میں شریک ہوکر عوام کی آواز بننا ہونا چاہیئے تھا۔ افسوس کہ اپوزیشن نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیکھایا ہے کہ ہمیں عوام سے نہیں اقتدار سے دلچسپی ہے۔
عوام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ تحریک میں شامل فرنٹ پر بڑی جماعتیں اقتدار کا حصہ رہی ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر ہیں۔ پی ڈی ایم کے یہ سارے گنبد عوام کے آزمائے ہوئے ہیں۔عوام کو ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ جماعتوں کے کارکنان حسب روایت جلسوں کی رونق بنتے ہیں مگر عوام میں سے عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عوام الگ تھلگ ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں اب تک کوئی تحرک پیدا نہیں ہے۔ جس سے بات ثابت ہوتی ہے کہ عوام کی شمولیت کے بغیر پی ڈی ایم کی تحریک ہوا میں معلق ہے۔
پرویز مشرف کی آمریت کے بعد جیسا کہ میثاق جمہوریت کیا ہوا تھا۔ میثاق جمہویت کو آگے بڑھایا جاتا ۔ ملکی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کےلئے پی ڈی ایم بنائی جاتی ۔ایک مضبوط بیانیہ دیا جاتا تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی کہ عوام الگ کھڑے ہوتے اور جمہوریت کی راگنی الاپنے والے الگ واویلا مچا رہے ہوتے۔ اگر نوازشریف مموگیٹ نہ کرتے اور آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات کرنے سے انکار نہ کرتے ۔ جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہتے تو آج انہیں لندن میں پناہ لیکر آرمی چیف اور جنرل فیض کو ہدف تنقید نہ بناناپڑتا اور نہ ہی بیانیہ کی یہ اذان دینی پڑتی۔
بیانیہ کی یہ بانگ عوام اب فریب کاری سمجھ رہے ہیں کہ میاں صاحب صرف معاملات طے کرنے کےلئے شور مچارہے ہیں ۔معاملات طے ہوجاتے ہیں تو حسب سابق میاں صاحب کو ٹھنڈ پڑجائے گی۔
لیگی حلقوں سمیت پارٹ ٹائم دانشوروں میں جس بیانیہ کا شور ہے۔ بیانیہ کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔ یہ ایسی عمارت تھی ۔ جس کی بنیادیں سرے سے موجود نہیں تھیں۔ جس کو گرنا ہی گرنا تھا۔ نوازشریف مزاحمت کار بننے نکلے ہیں مگر ان میں مزاحمت کا مادہ ہی نہیں ہے۔ آخری عمر میں جنت گنوا بیٹھے ہیں۔ کئی بیماریوں کا شکار ہیں۔ صحت کی پیچیدگی کے باعث کمانڈ کمزور پڑ رہی ہے۔
آصف علی زرداری میں بھی دم نہیں رہا ہے۔ فضل الرحمن ویسے ہی خدا کے بندے ہیں۔ بقا کی ساری ذمہ داریاں مریم نواز اور بلاول پر ڈال دی گئی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نوجوان قیادت ہے۔ کرپشن سے پاک ہے۔ یعنی اصول یہی رہ گیا ہے کہ اگر اقتدار میں نہیں رہے تو کرپٹ نہیں ہیں۔ انہیں اقتدار دیکر کرپٹ کیا جائے۔مگر صدقے ان والدین کے جنہوں نے اقتدار میں آئے بغیر اپنی اپنی کرپشن کے بوجھ بچوں پر ڈال دیئے ہیں۔ بچے بھی فرمانبرادر ہیں۔ والدین کو بچانے نکل پڑے ہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ بچے ہیں کیا کریں ۔پ چھے ہٹتے ہیں تو لاج لگتی ہے اور آگے بیانیہ کا بوجھ بڑھنے نہیں دیتا ہے۔
فرمائشی پروگرام کررہے ہیں ۔ کرتے رہیں گے جب تک بات بن نہیں جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کے گنبد بھی کھڑے رہیں گےاور ہوا میں معلق تحریک بھی چلتی رہے گی۔ بیانیہ کا فریب بھی عوام کو دیا جاتا رہے گا۔ یہ کون سا کوئی پہلی بار ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے۔