عالمی مالیاتی بینک کے معروضات اور پاکستان میں ٹیکس کے تلخ حقائق

ریاست کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اس نے محصولات کا ظالمانہ نظام بھی جاری رکھا ہوا ہے اور عوام کو تعلیم اور صحت کے لئے نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسز کی بھرمار، پیداوار میں کمی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان کا درمیانہ طبقہ مشکلات کا شکار ہے۔

عالمی مالیاتی بینک کے معروضات اور پاکستان میں ٹیکس کے تلخ حقائق

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے 2016 کی اپنی ایک رپورٹ (Unlocking Pakistan’s Tax Potential) میں ایک تخمینے، جس پر مقامی ماہرین نے پہلے ہی کئی مرتبہ روشنی ڈالی، کو تسلیم کیا کہ پاکستان میں مالی سال 15-2014 میں صرف وفاقی سطح پر ہی ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل (استعداد) 8 ٹریلین روپے سے کم نہیں تھا، چنانچہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گذشتہ کئی برسوں سے استعداد سے کہیں کم ٹیکس جمع کرتا رہا تھا، اور اب بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے کوئی نئی بات نہیں کی تھی اور نا ہی اب کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف اس جائزے کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے؛ 'اس پروگرام کے تحت حالیہ ترقی کے باوجود پاکستان کا حاصل کردہ ٹیکس دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ٹیکس کی بنیاد محدود، نقائص سے پُر، کمزور اور یکسوئی اور ترقی سے عاری ہے۔ اس میں انتظامی اور سیاسی سطح پر کمزوریاں پائی جاتی ہیں'۔

محتاط اندازے کے مطابق 23-2022 کے مالی سال میں پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی محصولات کی وصولی کا حجم 16 ٹریلین سے کم نہ تھا، جبکہ ایف بی آر نے ہر طرح کے منفی ہتھکنڈوں، پیشگی انکم ٹیکس جو کہ واجب بھی نہ تھا، غیر حقیقی ٹیکس کے واجبات کی بنک اکاؤنٹس کی بندش سے وصولی اور جائز ریفنڈز (refunds) روک کر بھی، صرف 7.169 ٹریلین حاصل کیے۔

براہ راست محصولات کی مد میں ایف بی آر  نے 2284.9 بلین اکٹھے کیے۔ اس میں سے افسران کی اپنی کوششوں سے current demand اور arrear demand کی وصولی محض 161.7 بلین  تھی۔ ٹیکس دہندگان نے اپنے طور پر پیشگی انکم ٹیکس یا گوشواروں کے ساتھ 1093.6 بلین جمع کروائے اور خود کار withholding کے نظام کے ذریعے 2007 بلین موصول ہوئے۔

23-2022 کے مالی سال میں ہر سال کی طرح کروڑوں افراد نے پیشگی انکم ٹیکس ادا کیا، مگر تاحال ٹیکس سال 2023 کے لئے گوشوارے داخل کرانے والوں کی تعداد 50 لاکھ بھی نہیں اور اس میں بھی اکثریت نے خسارہ دکھایا ہے یا ناقابل ٹیکس آمدن ظاہر کی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق ملک میں جولائی 2014 میں، بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے، موبائل فون صارفین کی تعداد 140 ملین تھی، کچھ اشخاص کے پاس ایک سے زائد SIMs بھی ہوتی ہیں۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد، اپریل 2015 میں یہ تعداد کم ہو کر130 ملین رہ گئی۔ 30 ستمبر 2023 کو ان کی تعداد بڑھ کر190 ملین ہو گئی۔ ان صارفین نے 23-2022 کے مالی سال کے دوران 86.9 بلین روپے ایڈوانس انکم ٹیکس کی مد میں ادا کیے، جبکہ صرف 2 فیصد افراد نے اب تک ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کثیر تعداد میں شہریوں سے پیشگی ٹیکس وصول کیا گیا، حالانکہ ان کی آمدنی قابل ٹیکس نہ تھی۔ بہت سے شہری ٹیکس انتظامیہ کے ظالمانہ سلوک کی وجہ سے گوشوارہ جمع کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس عملے اور افسران کی بدعنوانی بھی انہیں گوشوارے جمع نہ کرانے پر مجبور کرتی ہے۔

ایف بی آر کی ویب سائٹ پر 3 نومبر تک فعال ٹیکس گزاروں کی تعداد 5,073,857 تھی، جس میں افراد 3,439,011 اور بقیہ کمپنیز یا کاوباری شراکت دار تھے۔ یہ لسٹ ہر سوموار کو اپ ڈیٹ کی جاتی ہے۔

ایف بی آر نے 130 ملین کے قریب موبائل فون صارفین سے 23-2022 کے دوران 15 فیصد پیشگی انکم ٹیکس وصول کیا، لیکن ان میں سے ٹیکس سال 2023 کے لئے صرف 2 فیصد نے 5 نومبر 2023 تک انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے۔

یہ بھی حیران کن ہے کہ جی ایس ٹی ٹیکس کے تحت 2 لاکھ سے کم افراد اور ادارے رجسٹرڈ ہیں، حالانکہ ملک میں 30 لاکھ ریٹیلرز اور 20 لاکھ کمرشل اور صنعتی بجلی کے صارفین ہیں۔ آئی ایم ایف نے بالکل درست نتیجہ اخذ کیا ہے؛ 'ٹیکس کے ان ناقص خدوخال کے ساتھ پاکستان کو بالواسطہ ٹیکسز اور درآمدی ڈیوٹی پر انحصار کرنا پڑتا ہے'۔

پاکستان کا حقیقی مسئلہ براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کے مابین غیر منصفانہ توازن ہے۔ اس کی وجہ سے امیر زیادہ سے زیادہ امیر اور غریب، غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دولت مند اور طاقتور افراد کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے بجٹ خسارے میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی غلط پالیسیاں عوام کے مسائل بڑھا رہی ہیں۔

پاکستان کی 30 فیصد آبادی یومیہ 1.25 ڈالر سے بھی کم آمدنی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ آمدنی ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈی کیٹر 2022 کے مطابق انتہائی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔ دولت مند افراد سے ٹیکس وصول نہ کرنا، انہیں خوش کرنے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دینا، کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے سکیمیں اور پھر قرض لے کر چکاچوند منصوبے بنانا، ہمارے معاشی اور سیاسی نظام کا طرہ امتیاز بن چکا ہے اور ستم یہ ہے کہ اسی کو ہم اپنی معاشی کامیابی گردانتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گذشتہ 20 برسوں کے دوران جی ڈی پی میں براہ راست ٹیکسز کا حصہ 3 فیصد سے کبھی نہیں بڑھا۔ اگر ریاست دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کر کے غریب عوام کی نگہداشت نہیں کر سکتی تو اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

پاکستان انکم ٹیکس قانون میں ایسے لاتعداد بالواسطہ ٹیکسز ہیں جنہیں براہ راست ٹیکس قرار دیا جاتا ہے، اگرچہ ان کا افراد کی آمدنی سے کوئی تعلق نہیں اور ان کا بوجھ بڑی آسانی سے حتمی صارف پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔

23-2022 کے مالی سال کے دوران ایسے محصولات کا حجم کل انکم ٹیکس میں 1190 بلین روپے تھا۔ یہ کل محصولات کا 17فیصد تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ براہ راست ٹیکس کی شرح کل محصولات کے 25 فیصد سے زیادہ نہ تھی، لیکن ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح 42 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کا اصل زور جی ڈی پی کی شرح کے مطابق ٹیکس میں اضافے پر ہے لیکن یہ ادارہ اس بات کا ذکر کرنے سے گریز کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح حاصل کردہ رقم کو بے رحمی سے حکمران اشرافیہ کو سہولیات فراہم کرنے پر اجاڑ دیا جاتا ہے۔

مغرب میں ٹیکس کی اونچی شرح کا جواز نکلتا ہے کیونکہ ریاست شہریوں کا خیال رکھتے ہوئے کسی کی حق تلفی کرنے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن پاکستان میں مالیاتی امور کے تحفظ اور دیگر شہری سہولیات کا ذکر ہی کیا، ریاست عوام کو جان و مال کا تحفظ دینے کی بھی زحمت نہیں کرتی۔

ریاست شہریوں کو آئین پاکستان کے تحت ان کا بنیادی انسانی حق یعنی مفت اور لازم تعلیم بھی دینے سے گریزاں ہے۔

تعلیم کا حق، 25 الف؛ ریاست 5 سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لئے مذکورہ طریقہ کار جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے، مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی۔

ریاست کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اس نے محصولات کا ظالمانہ نظام بھی جاری رکھا ہوا ہے اور عوام کو تعلیم اور صحت کے لئے نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسز کی بھرمار، پیداوار میں کمی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان کا درمیانہ طبقہ مشکلات کا شکار ہے۔ اس کی سکت دم توڑ رہی ہے۔ بہت کم پاکستانی شہری 4,286 ڈالر فی کس آمدنی رکھتے ہیں۔ عالمی بینک کے معیار کے مطابق یہ درمیانی طبقے کی کم از کم آمدنی ہے۔

2022 میں پاکستان کی 90 فیصد بالغ آبادی کے پاس 10,000 ڈالر مالیت سے کم کی دولت تھی (اس دوران ارکان پارلیمان کی اوسط دولت 900,000 ڈالر فی رکن تھی، لیکن ان میں سے بہت کم نے اصل آمدن پر انکم ٹیکس ادا کیا)۔

کریڈٹ سوئسسے بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بالغ آبادی، جس کی دولت 10 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر مالیت کے درمیان ہے، کا حصہ 9.8 فیصد، جبکہ صرف 0.1 فیصد بالغ افراد ایک لاکھ سے ایک ملین ڈالر مالیت کی دولت کے مالک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتہائی امیر افراد کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں؟

آئی ایم ایف کی طرح پاکستان کے بہت سے نام نہاد معاشی ماہرین اور تجزیہ کار یہ بات سمجھنے میں ناکام ہیں کہ ایک طرف ریاست عوام کو تعلیم، صحت اور دیگر شہری سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے تو دوسری طرف ہمارا ٹیکس کا نظام آمدنی کے مطابق ٹیکس وصول کرنے سے عاری ہے۔ جمہوری ممالک میں انکم ٹیکس حقیقی آمدن اور طرز رہائش کے مطابق وصول کیا جاتا ہے اور ریاستیں خاندانوں کے سائز اور ضروریات کے مطابق ٹیکس میں کمی کر دیتی ہیں؛ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں ابھی جمہوری ریاست بننے میں کافی وقت لگے گا۔ اس کا دارومدار انتخابات کی تعداد یا حکومت کی مدت پوری کرنے پر نہیں ہے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔