سندھ: رواں ہفتے کا احوال (8 ستمبر تا 14 ستمبر)

سندھ: رواں ہفتے کا احوال (8 ستمبر تا 14 ستمبر)

حکومت کی عدم توجہی، سکھر میں فائربریگیڈ کا حساس شعبہ پستی کا شکار


سکھر میونسپل کارپوریشن کا اہم ترین اور حساس شعبہ فائر بریگیڈ حکومت کی عدم توجہی کے باعث پستی کی جانب جا رہا ہے، دو فائر بریگیڈ سٹیشنوں میں سے ایک سٹیشن بند ہے، سٹی میں موجود فائر بریگیڈ سٹیشن میں 4 گاڑیاں موجود ہیں جن میں سے ایک ناکارہ ہے اور فائر بریگیڈ سٹیشن نمبر 2 جو کہ پرانا سکھر نمائش کے علاقے میں موجود ہے اس کی تینوں گاڑیاں خراب ہیں۔ شہر کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے لیکن شعبہ فائر بریگیڈ آج بھی اپنی پرانی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہے جہاں ملازمین کے پاس آگ بجھانے کے جدید آلات تو دور، ضروری آلات بھی موجود نہیں ہیں۔ کسی بھی فائر فائٹر کے پاس یو نیفارم، شوز، دستانے، ہیلمٹ، ماسک سمیت دیگر ضروری آلات نہیں ہیں، سندھ میں پیپلزپارٹی کی دس سال مسلسل حکمرانی کے بعد اب تیسری مرتبہ بھی پیپلزپارٹی منتخب ہو کر اقتدار میں آئی ہے۔ حکومت کی جانب سے سکھر میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جانے کے حوالے سے بلند وبانگ دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ انتہائی حساس اور ضروری شعبہ فائر بریگیڈ کے پاس آگ بجھانے کے آلات نہ ہونے کے ساتھ ساتھ سنارکل بھی نہیں ہیں، سکھر شہر میں سو سے زائد کثیر المنزلہ عمارتیں موجود ہیں لیکن بڑی تعداد میں کثیر المنزلہ عمارات کے شہر میں ایک سنارکل تک نہیں ہے۔






محرم الحرام، پولیس و رینجرز کا مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن، 20 سے زائد گر فتار


محرم الحرام کے دوران امن و امان کی فضا کو بحال رکھنے کے لئے ڈی آئی جی سکھر کے زیر صدارت ڈویژن کے مختلف مکاتب فکر کے علما کرام اور پولیس افسران کا اجلاس، شرکا نے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرنے، پولیس و قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی جبکہ پولیس و رینجرز کی جانب سے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران 20 سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔




سکھر اور گردونواح میں مضر صحت خوردنی تیل کی فروخت، عوام خریدنے پر مجبور


سکھر، روہڑی سمیت گرد و نواح کے علاقوں میں مضر صحت خوردنی تیل کی فروخت کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا، مضر صحت و غیر معیاری گھی بلڈ پریشر، دل کے مرض میں مبتلا افراد کے لئے انتہائی خطرناک ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان لوگ سستا ہونے کے باعث غیر معیاری گھی و تیل استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ انتظامیہ اس کاروبار کرنیوالوں کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے، سکھرسمیت سندھ بھر کی مارکیٹوں میں غیر معیاری گھی اور تیل کی فروخت کرنیوالوں کیخلاف کریک ڈاؤن نہ ہونے کے باعث اس کی فروخت اور استعمال میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ غریب افراد 150 سے 200 روپے فی کلو تک فروخت ہونیوالے کھانے کے تیل اور گھی کے بجائے 120 سے 140 روپے تک فی کلو فروخت کرنیوالا کھلا خوردنی تیل خرید کر اپنے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔






دریائے سندھ میں طغیانی، ڈیڑھ لاکھ ایکٹر اراضی زیر آب،13 سالہ لڑکا ڈوب کر ہلاک


نیو سعید آباد کے قریب کاری کیٹی کے جنگلات میں دریائے سندھ کے سیلابی پانی میں ڈوب کر13 سالہ لڑکا ساون ولد کرشن باگڑی ہلاک ہو گیا۔ طویل جدوجہد کے بعد مقامی رضاکاروں نے کئی گھنٹوں بعد ساون کی لاش نکال کر ورثا کے حوالے کی، لاش گھر پہنچنے پر صف ماتم بچھ گئی۔ دریائے سندھ میں سطح آب میں اضافے کاسلسلہ ہے، دریا میں طغیانی سے جنگلات، ریونیوکی ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی زیر آب آ گئی ہے۔ کپاس، سرسوں، کیلا، پیاز اور دیگر فصلیں وسبزیاں ڈوبنے لگیں۔ لاکھوں روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔




صحرائے تھر میں قحط سے حالات سنگین، ہزاروں خاندان فاقہ کشی پرمجبور، مویشی بھوک سے مرنےلگے، سینکڑوں دیہات سے نقل مکانی تیز


تفصیلات کے مطابق صحرائے تھر کی سات تحصیلوں کے کل 2300 دیہاتوں میں قحط کے باعث حالات انتہائی سنگین ہو گئے ہیں۔ 16 لاکھ انسانی آبادی، 90 لاکھ مویشی اور چرند پرند بھوک اور بدحالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دیہاتوں میں خوراک اور پانی کی تکالیف نے زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ تھر کے د یہات سے ہونے والی تیز تر نقل مکانی کے سبب ہر راستے پر جانے والے خاندانوں اور مویشیوں کے ریوڑ ہی ریوڑ نظر آ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی نقل مکانی کو روکنے کے لئے تاحال سندھ حکومت و ضلعی انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ نگرپاکر، چھاچھرو اور ڈاہلی کے سرحدی دیہات میں موجود زیر زمین پانی کے کنویں خشک ہو چکے ہیں اور لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔ اسی طرح سے مویشیوں کا چارہ نہ ہونے اور خشک سالی کے باعث مویشی بیچ راستے میں مرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جنگلی حیات مور اور دیگر پرندے بھی روزانہ بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔

علاقہ مکینوں کو کہنا ہے کہ تھر میں اس سے پہلے جتنے بھی قحط پڑے ان میں سے یہ قحط انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس سے قبل بارشیں تاخیر سے ہوتی تھیں اور علاقے کو قحط زدہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ اور مویشیوں کے لئے کچھ نہ کچھ گھاس ہو جاتا تھا تاہم اس سال بارشیں بالکل ہی نہیں ہوئی ہیں اور حالات بہت ہی مختلف ہیں۔