ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
پاکستانی عوام میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو سمجھتی ہے کہ عمران نیازی 22 سال کی محنت کے بعد انتخابات میں جیت کر وزیراعظم بنے ہیں لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کا جنم کس کے گھر ہوا اور کونسی قوتیں ان برسوں میں اسے توانائی فراہم کرتی رہیں۔ ہمارے مہربانوں نے بڑی بھاری ذمہ داریاں اپنے سر لے رکھی ہیں۔ کبھی وہ مسلح گروہوں کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی سیاست میں پریشر گروپس بنا کر حکومت وقت کو دباؤ میں لیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ سب ملک و قوم کے مفاد میں کیا جاتا ہے۔

یادش بخیر 2011 میں کینیڈا سے آئے خود ساختہ شیخ الاسلام، ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام اباد کے ڈی چوک پر آ کر دھرنا دیا اور کھڑے کھڑے صدر، وزیراعظم سمیت پوری حکومت کی بر طرفی کا اعلان کر دیا۔ حکومت وقت نے دانشمندی کا ثبوت دیا اور مذاکرات  کے ذریعہ مولانا کو خالی ہاتھ واپس لاہور بھیج دیا۔ پھر 2014 میں لندن پلان کے عین مطابق عمران خان نیازی نے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا کر اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تو کینیڈین ڈاکٹر نے بھی رخت سفر باندھا اور دونوں کزنز نے ایک بار پھر ڈی چوک میں خیمے گاڑ دیئے۔ اس بار بھی حکومت وقت نے مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن دھرنے کے پس پردہ کردار اس بار حکومت (جمہوریت) کو کمزور کرنے کیلئے کھیل کو لمبا کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے کپتان بھی روز ایمپائر کو پکارتے تھے لیکن ظاہر ہے کھیل کھیلنے والوں کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ لہذا، کھیل چلتا رہا حتیٰ کہ پشاور میں APS کا دلخراش سانحہ پیش آیا اور تب کھیل کھیلنے والوں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا اور بادل نخواستہ دھرنا ختم کرنا پڑا۔

دھرنے کے دوران ہمارے آزاد میڈیا نے اپنی آزادی کا خوب فائدہ اٹھایا اور کھیل کے اصل کھلاڑیوں کی ہدایات کے مطابق حکومت وقت کے خوب لتے لئے۔ ایک طرف دہشتگردی کا مقابلہ دوسری طرف ملک سے اندھیروں کو دور کرنا حکومت وقت کیلئے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے۔ اگر ٹھنڈے دل سے اس وقت کے حالات پر غور کیا جائے تو نواز شریف حکومت کو سلام کرنا چاہیے ہے۔

اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کر جب ہم آجکل کے حالات کو دیکھتے ہیں تو راوی چین ہی لکھتا نظر آتا ہے۔ نہ آئے روز کے بم دھماکے ہیں اور نہ ہی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ نواز حکومت نے گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی کا اضافہ کر کے لوڈ شیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کیا۔ پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 58 ہزار پوائنٹس تک چلی گئی۔ ملک سے گیس کی قلت کو دور کیا۔ کراچی سے حیدرآباد، سکھر سے ملتان اور ملتان سے لاہور تک موٹر ویز کا جال بچھایا۔ مدت طویل سے زیر تعمیر اسلام آباد ائیرپورٹ مکمل کیا۔ لواری ٹنل کو مکمل کیا۔ پنجاب کے تین بڑے شہروں میں عوام کی سہولت کیلئے میٹرو چلائی گئی۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ اس وقت کے چیف جسٹس کے بغض کی نذر ہو گیا۔ ان سب کے باوجود اس وقت کی حکومت مسلسل دباؤ کا شکار رہی کیونکہ کچھ معاملات پر ہمیشہ کی طرح امریکہ اور پنڈی وال خوش نہیں تھے اور اس حکومت سے نجات چاہتے تھے۔

آئین سے 58/2 بی کی رخصتی کے بعد اب ایک ہی راستہ بچا تھا کہ عدلیہ کے ذریعہ اپنا مقصد حاصل کیا جائے۔ پھر جس طرح مقدمہ چلا، جے آئی ٹی بنی اور جو جو شرمناک ریمارکس ججز کی طرف سے وزیراعظم کے بارے میں دیے گئے وہ عدلیہ کے ماتھے پر ہمیشہ بد نما داغ کی صورت چسپاں رہیں گے۔ اس وقت کے وزیراعظم کو نااہل کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیا گیا۔ اب اگلا مرحلہ تھا آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنا اور کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا جو کہ انتخابات میں بدترین دھاندلی کے ذریعہ حاصل کیا گیا۔ سب کچھ کرنے کے باوجود پنڈی وال اتنے ممبر منتخب نہ کرا سکے کہ حکومت بنائی جا سکے تو ہر حکومت میں شامل لوٹا سرکار نے دست تعاون دراز کیا اور یوں بھان متی کے کنبہ کی حکومت بن گئی۔

پنڈی سرکار نے میڈیا کے نمائندوں کو ہدایات جاری کیں کہ صرف چھ ماہ مثبت رپورٹنگ کریں پاکستان ٹیک آف کر جائیگا۔ آج حکومت کو بنے ایک سال سے اوپر ہو چکا ہے۔ میٹرو بس کا کرایہ دو گنا کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے ہسپتالوں میں مفت ادویات نایاب ہیں۔ اسٹاک ایکسچیج 29 ہزار پوائنٹس پر آ گیا ہے۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ مزدور بے روزگار ہو رہا ہے۔ پٹرول 80 روپے سے 113 روپے پر ہے۔ یہ سب ایسی حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جس نے ایک سال میں مسلم لیگ (ن) کے حکومت کے چار سالوں جتنا قرضہ لیا ہے۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ایک ایسے شخص کو ملک کی عنان سپرد کر دی گئیں جس نے کبھی اپنا گھر نہیں چلایا۔ ہمارے مہربانوں کو بھی عقل آ جانی چاہیے کہ جو کام ان کا نہیں ہے اس میں دخل دینا اب بند کر دیں کیونکہ یہ ملک اب مزید صدمات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔