رنگ بدلتا ہے آسماں کیسے کیسے۔ ایک وقت تھا کہ اے آر وائی پاکستان میں شفافیت اور احتساب کا سب سے بڑا داعی تھا۔ اس کے اینکر کرپشن کے خلاف سخت پوزیشن لیا کرتے تھے۔ ایک آدھ سال نہیں، یہ کام کئی برس چلتا رہا۔ آج سے آٹھ سال پرانا پروگرام بھی اٹھا کر دیکھ لیجئے، اے آر وائی کے رپورٹر اور اینکر حضرات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے لیڈران کی کرپشن پر بھرپور آواز اٹھاتے دکھائی دیں گے۔ لندن کی جائیدادوں، فرانس کے دوروں پر نواز شریف اور آصف زرداری کو خوب معتوب کیا جاتا تھا اور ان سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت اور بیرونِ ملک اثاثوں پر حساب مانگا جاتا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان بھی کرپشن کا پیسہ واپس لانے کے مطالبے کیا کرتے تھے اور باقی چینلز کی طرح اے آر وائی پر بھی روز نہیں تو ہفتے میں دو سے تین مرتبہ ضرور اپنے مطالبات دہرانے کے لئے ون آن ون شوز میں سج سنور کر بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جب سے عمران خان صاحب نے اپنے معاونِ خصوصی کی دی گئی صفائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، اے آر وائی بھی مکمل طور پر مطمئن ہو گیا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ کرپشن کا الزام لگانے والوں کے خلاف صف آرا ہو گیا ہے تو ناجائز نہ ہوگا۔
چند روز قبل احمد نورانی پر غداری کے فتوے جاری کرنے کے بعد اب اے آر وائی پر ارشد شریف کے پروگرام میں جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باوجوہ کے اثاثوں سے متعلق بحث میں ایک نئے زاویے کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اے آروائی کے پروگرام میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ عاصم باجوہ کے خاندانی کاروبار کی تفصیلات سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے چرائی گئیں۔ پروگرام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ دستاویزات فخر درانی کے نام پر عمارہ نامی خاتون نے فیس دے کر حاصل کیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایس ای سی پی نے اپنی انکوائری کی تو ارسلان حجازی نامی افسر اس سب میں ملوث نکلے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ارسلان حجازی کے والد اسحقٰ ڈار کے قریبی ہیں اور ان کے آپس میں مراسم ہیں۔ ارسلان حجازی کے والد ظفر حجازی ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین ہیں۔
اے آر وائی کی خبر میں جھول
اے آر وائی کے پروگرام میں جو بھی انکشافات کیے گئے ہیں وہ ایسے جھول رکھتے ہیں کہ یہ دعوے اپنے آپ میں ہی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مثلاً اگر فیکٹ فوکس نامی اس ویب سائٹ پر موجود جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق جو دستاویزات دستیاب ہیں، ان پر ایس ای سی پی کی باقاعدہ تصدیقی مہر ثبت ہے۔ یہ یاد رہے کہ تصدیقی مہر اس وقت لگائی جاتی ہے جب کوئی دستاویز ایس ای سی پی سے اٹیسٹ کرائی جائے اور یہ ایک قانونی عمل ہے جو رائٹ آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں ایک سائل متعلقہ دستاویزات کے حصول کے لئے درخواست دیتا ہے۔ اور پھر اس درخواست کی ایک پراسیسنگ فیس بھرتا ہے۔ اس فیس کی رسید دی جاتی ہے اور پھر ایک معینہ مدت میں وہ دستاویزات تصدیق کر کے اس سائل کو دی جاتی ہیں۔
ایک ٹکر میں دستاویزات فیس دے کر حاصل کی گئیں، دوسری میں چوری
سنگین مذاق یہ ہے کہ اے آر وائی کی اپنی خبر میں یہی کہا گیا ہے کہ یہ دستاویزات فیس ادا کر کے ایک صحافی نے اپنی مؤکلہ کے توسط سے حاصل کی ہیں۔ تو پھر ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ دستاویزات لیک ہوئیں اور پھر یہ بھی کہ دستاویزات کی چوری ہوئی۔ جو کہ اپنے میں ہی ایک متضاد بات ہے۔
کیا کسی افسر نے کوئی غیر قانونی کام کیا؟
اب آ جایئے اس افسر کی جانب جس کے متعلق اے آروائی نے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ وہ ملوث نکلا۔ اس حوالے سے ایک بات جو اوپر طے کی گئی ہے کہ یہ تمام عمل قانونی ہے اور قانونی طور پر ہی کیا گیا ہے، ایسے میں جس افسر کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اس میں شامل تھا وہ در اصل کسی غیر قانونی عمل میں شامل نہیں بلکہ قانونی طور پر پابند اپنی ڈیوٹی نبھا رہا تھا۔ جس کا کام تھا کہ وہ سائل کی درخواست پر تمام درکار جزئیات مکمل ہونے پر اس کی درخواست پر عمل کرے۔
ظفر حجازی اور اسحٰق ڈار میں تعلق کیا ہے؟
پھر ارسلان ظفر کے والد ظفر حجازی کا تعلق اسحٰق ڈار سے جوڑا جا رہا ہے تو اس کی بھی سن لیں۔ دی نیوز سے وابستہ تحقیقاتی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں ایک خبر کے ذریعے انکشاف ہوا کہ نیب نے مختلف مواقع پر اسحاق ڈار کے خلاف انکوائریز شروع کیں۔ تاہم، ہر بار تفتیشی افسران نے انکوائری کے بعد ایک ہی تجویز دی کہ ’کیس بند کیا جائے‘۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ 2000 سے اب تک یکے بعد دیگرے آنے والے نیب کے سربراہان نے ماتحت افسران کو اسحٰق ڈار کا کیس زیر التوا رکھنے کے احکامات جاری کیے۔ یعنی تفتیشی افسران کی جانب سے کیس میں کوئی جان نہ ہونے کی رپورٹ دی جاتی اور سربراہان کہتے پھر بھی کھلا رکھو۔
ظفر حجازی کا یہ قصور رہا کہ انہوں نے اسحٰق ڈار کے خلاف ایسے کیسز جن کے بارے میں تفتیش ہونے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ ان کا کوئی جرم نہیں انہیں دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ اس قصور پر ان کا ساتھ جوڑ بھی دیا جائے تو بھی کم از کم ارسلان حجازی کو کسی حوالے سے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یوں مختصر یہ کہ اے آروائی کی خبر جس طرح سے جوڑ توڑ کر تخلیق کی گئی ہے یہ سیدھی سیدھی صحافتی بدیانتی ہے۔
کرپشن اگر واقعی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے تو پھر سب کی کرپشن پر بات ہونی چاہیے۔ جس طرح سیاستدانوں کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے، اتنا ہی موقع ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو بھی دیا جانا چاہیے۔ اور یہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے تو وزرائے اعظم اور صدور کو یہ سہولت کیوں میسر نہیں۔ پس ایک فیصلہ کر لیجئے، کہ مسئلہ کرپشن سے ہے یا سیاستدانوں سے۔