اس وقت اگرچہ ملک بھر میں صحافیوں کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ میڈیا کی آزادی سلب کرنے کی کوششیں ہر سطح پر جاری ہیں تاہم بلوچستان میں صحافت کرنا جان جوکھوں والا کام ہے، خصوصاً قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو ہر طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں نہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور نا ہی صحافتی تنظیموں کی رسائی ہوتی ہے، اگر رسائی ہو بھی جائے تو وہاں فعال کردار ادا نہیں کر پاتیں۔ پھر اس طرح کے علاقوں میں صحافیوں پر دباؤ زیادہ ہوتا ہے، با اثر سیاست دان اور ریاستی ادارے صحافیوں کو دبانے کیلئے تشدد سمیت ہر حربہ آزماتے ہیں۔
بعض اوقات صحافی کی کسی خبر کو جواز بنا کر انہیں قبائلی جرگہ میں گھسیٹا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں با اثر شخصیات اور علاقائی نمائندے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے سوشل میڈیا ونگ بنا کر صحافیوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ علاقے سے منتخب نمائندے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو ایسے صحافیوں کی ٹرولنگ پر لگاتے ہیں جو ان کی بدعنوانیوں پر کچھ کہتے یا لکھتے ہوں۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ مختلف ناموں اور نمبروں سے فیس بک آئی ڈی اور وٹس ایپ گروپ بنا کر صحافی کی آواز کو دبانے کے لیے گالم گلوچ کر کے صحافیوں کو ذہنی طور پر ٹارچر کریں اور یہ صورت حال قومی سطح پر توجہ حاصل نہیں کر پاتی جبکہ اس کے برعکس بڑے شہروں میں صحافیوں کو نسبتاً پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا اور ہراسمنٹ کی صورت میں فوری طور پر صحافی برادری مدد کیلئے پہنچ جاتی ہے۔
واشک پریس کلب کے صدر اسماعیل عاصم کے مطابق انہیں جہاں قبائلی طور پر غیر اعلانیہ پابندیوں کا سامنا ہے، تو وہیں انتظامیہ کی جانب سے بھی صحافیوں کو مختلف حیلے حربوں کا سہارا لے کر دباؤ میں رکھنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔
اسماعیل عاصم بتاتے ہیں کہ فروری 2021 کی بات ہے انہیں یہ اطلاع ملی کہ بسیمہ کی ایک چوکی پر تیل بردار گاڑیوں سے بھتہ لیا جاتا ہے تو وہ اور روزنامہ انتخاب سے وابستہ ان کا ایک ساتھی عبدالحمید مذکورہ چوکی پر صورت حال دیکھنے چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے دیکھا کہ تیل بردار گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور سرعام بھتے وصول ہو رہے ہیں تو انہوں نے اس کی ویڈیو بنا لی۔ جب ویڈیو وائرل ہو گئی تو اس پر بالائی افسر نے نوٹس لے کر ملوث 7 اہلکاروں کو معطل کر دیا، جس کے بعد ان صحافیوں کے خلاف ایک محاذ کھل گیا۔
ایک طرف سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی شروع ہوئی تو دوسری طرف نامعلوم نمبروں سے ان کو دھمکیاں ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا جن کی شکایت انہوں نے تھانہ میں درج کروائی لیکن المیہ یہ ہے کہ فورسز کی جانب سے اس طرح کے واقعات کی انکوائری بھی وہی لوگ اور ادارے کر رہے ہوتے ہیں کہ جن کے خلاف شکایتیں ہوں۔ اس صورت میں انصاف ملنا تو درکنار، الٹا متاثرہ صحافی کو ہی مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا سلوک ہوا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ چوکی پر بغیر اجازت کیوں گئے؟ یہ تو کار سرکار میں مداخلت ہے۔ اس رویہ کے بعد انہوں نے ہراساں کرنے والے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا مطالبہ ترک کر دیا۔
قبائلی علاقوں میں سب سے بڑی پریشانی
قبائلی علاقوں میں صحافیوں کو اس وقت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےجب سیاسی یا قبائلی مخالفین ایک دوسرے کی مخالفت پر اتر آئیں اور ایک دوسرے کے خلاف ریلیاں نکالیں یا پریس کانفرنسیں کریں۔ ایسے مواقع پر دونوں جانب سے صحافی کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ان کی پریس کانفرنس یا ریلی کو زیادہ کوریج دی جائے جبکہ بڑے شہروں میں بیٹھے میڈیا مالکان کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کے نمائندے کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ چینلز کسی کی خبر چلاتے ہیں تو کسی کی خبر نہیں چلاتے تو پھر الزام مقامی صحافی پر آتا ہے کہ مخالف فریق کے کہنے پر انہیں کوریج نہیں دی گئی۔
اسی طرح بعض اوقات یہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں جس کو چلانے کی نہ صحافتی اصول اجازت دیتا ہے اور نا ہی اخبارات اور چینلز ان کو نشر کرتے ہیں تو پھر بھی دباؤ مقامی صحافی پر ہی پڑتا ہے۔ کوہلو سے تعلق رکھنے والے صحافی انعام بلوچ کے ساتھ اس طرح کا ایک معاملہ پیش آیا کہ ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے مخالف پارٹی کے خلاف ریلی نکالی گئی اور اس ریلی میں ان کے رہنماؤں نے مخالف پارٹی کے قائدین کے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہہ کر گالیاں دیں تو انہوں نے ان کی خبر صحافتی زبان میں ہی بنا کر اخبار کو بھیج دی۔ اگلے روز اخبار نے تین کالمی خبر کوریج کے ساتھ لگا دی۔
انعام بلوچ کہتا ہے کہ اخبار پڑھنے کے بعد اس پارٹی کے لیڈر کی جانب سے کال آئی۔ ان کی کال دیکھ کر میں نے سوچا کہ شاید شکریہ ادا کرنے کے لیے کال کی جا رہی ہے تاہم معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ کال ریسیو ہوتے ہی مجھے دباؤ میں ڈالنے کے لیے دھمکی آمیز سخت لہجے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیڈر کی جانب سے ترش انداز میں کہا جا رہا تھا کہ آپ نے وہ باتیں کیوں شامل نہیں کی ہیں جو ہمارے پارٹی رہنماؤں نے کی ہیں تو میں نے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت باتیں وہی ہیں، بس ہم نے صحافتی زبان میں بنا کر خبر دی ہے کیونکہ انہوں نے تو خالصتاً گالیاں دی ہیں اور وہ دشنام طرازی ہم نہیں دے سکتے اور نا ہی ہمارے اخبار چھاپتے ہیں جس پر ان کا کہناتھا کہ بس آپ سیدھے ہو جاؤ، ورنہ ہمیں جانتے ہو۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اندرون بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے صحافیوں کو کن حالات سے گزر نا پڑتا ہے۔
خضدار کے ایک سینیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کئے جانے کی شرط پر فیلڈ میں مشکلات کے حوالے سے اپنی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ 2012 کی بات ہے خضدار میں واقع کاٹن فیکٹری کو آگ لگی، اس خبر کی انہوں نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر فیکٹری مالک نے خود آگ لگا دی ہے کیونکہ فیکٹری کی انشورنس ہوئی ہوئی تھی اور فیکٹری مالک نے جو کاٹن خریدی تھی اس میں فی من 12 سو روپے ان کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا لہٰذا انہوں نے اس چکر میں فیکٹری کو جلا دیا۔ جب یہ تحقیقاتی خبر چلی تو فیکٹری مالکان کی جانب سے رابطہ کیا گیا کہ آپ نے ہمارا مؤقف نہیں سنا، لہٰذا ہمارا مؤقف لینے کے لیے آ جائیں۔
صحافی نے بتایا کہ جب میں ان کے ہاں پہنچا تو فیکٹری مالکان کے ساتھ دو دیگر قبائلی شخصیات بھی موجود تھیں۔ فیکٹری مالکان نے صحافی کے سامنے دو آپشن رکھے، ایک طرف پیسہ اور دوسری طرف پسٹل رکھا گیا اور کہا گیا کہ ان دو میں سے جو بھی مرضی قبول کریں لیکن ہمیں خبر کی فوری تردید چاہئیے۔ سینیئر صحافی کے مطابق اس نے سیفٹی کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے یہ کیا تھا کہ فیکٹری مالکان کے پاس جانے سے قبل میڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کو بتا دیا کہ میں فلاں لوگوں کے پاس جا رہا ہوں تاکہ آپ آگاہ رہیں۔ تو فوری طور پر میں نے فیکٹری مالکان کے سامنے اسی دوست کو کال کی، سپیکر آن کیا اور کہا کہ آپ بتائیں میں اس وقت کہاں ہوں تو اس نے جواب دیا کہ فلاں فیکٹری مالکان کے پاس ہو۔ بس اتنا ہی ان سے کہلوا کر میں نے کال کاٹ دی اور ہراساں کرنے والوں سے کہا کہ سن لیا نہ، بس اب آپ کو میرے ساتھ جو بھی کرنا ہے کر لو لیکن میں خبر کی تردید ہرگز نہیں کروں گا۔ اس کے بعد انہیں مجبوراً مجھے چھوڑنا پڑا۔ پریس کلب واپس آ کر میں نے دیگر صحافیوں کو بتا دیا اور ہم نے تھانہ میں درخواست بھی دے دی تاہم درمیان میں علاقہ معززین و قبائلی شخصیات آئیں۔ انہوں نے معافی تلافی کرا کے صلح کرا دی۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری کا مؤقف
بلوچستان کے صحافیوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور احمد بلوچ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کوئٹہ کے علاوہ اندرون بلوچستان کے صحافیوں کے لیے تنظیم کی جانب سے مشکل صورت حال میں کیا مدد کی جاتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہم بلوچستان کے تمام صحافیوں کو ایک طرح سے دیکھتے ہیں، ہمارے لیے سب کی اہمیت یکساں ہے چاہے وہ ہمارا ممبر ہو یا نہ ہو، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس مشکل صورت حال میں ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ خضدار پریس کلب کے صحافیوں پر حالیہ دو حملوں کے خلاف ہم نے مذمتی بیان جاری کیا اور وزیر داخلہ سے بھی بات کی۔ اسی طرح گوادر کے ایک صحافی یعقوب کو تھری ایم پی او کے تحت جب گرفتار کیا گیا تو میں نے بطور جنرل سیکرٹری اسی وقت وزیر داخلہ سے بات کی جبکہ ہمارے صدر عرفان سعید نے وزیر اعلیٰ سے بات کی اور اس کو ہم نے چھڑوایا۔ خضدار پریس کلب کے صدر پر گذشتہ ہفتہ کو ہونے والے حملے پر ہم نے مذمتی بیان جاری کیا جبکہ سکھر میں شہید ہونے والے صحافی جان محمد مہر اور خضدار پریس کلب کے صدر پر حملے کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بہت بڑا احتجاج کیا گیا جس میں تمام صحافی برادری نے شرکت کی۔
صحافیوں کے لیے مالی تعاون
صحافیوں کے مالی تعاون کے حوالے سے منظور بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی کوششوں سے 2020 میں جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ کا قیام ہوا جس پر 2022 سے عمل درآمد شروع ہوا۔ اس کے تحت صحافیوں کو علاج و معالجہ اور بچوں کی شادیاں یا ان کی اپنی شادی کی مد میں فنڈ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی صحافی کے شہید ہونے یا انتقال کی صورت میں ان کے ورثا کو 3 لاکھ روپے کے قریب امداد دی جائے گی۔ اس کے علاوہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی کوشش ہے کہ وہ حکومت بلوچستان کو قائل کرے کہ شہدا کے ورثا کے لیے ملازمت کا کوٹہ رکھا جائے اور شہید ہونے والے صحافیوں کے ورثا کے لیے ان کے چینل اور اخبار مالکان وظیفہ مقرر کریں۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی کوششوں سے اکثر شہدا کے ورثا کے لیے وظیفہ مقرر کیا جا چکا ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس بلوچستان کے صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
خضدار انتظامیہ کا مؤقف
خضدار کے صحافیوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے جب ڈپٹی کمشنر خضدار کیپٹن (ر) جمیل احمد بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہ ہو اور صحافی آزادانہ طور پر کام کریں۔ صحافیوں کی سیفٹی کی خاطر ہم نے پریس کلب کو سکیورٹی بھی دی ہے۔ لیویز اور پولیس کے 4 اہلکار خضدار پریس کلب میں ڈیوٹی پر متعین ہیں۔ باقی صحافیوں کو جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں انتظامیہ ان کی مدد کرتی ہے تاہم یہ قبائلی علاقہ ہے، یہاں قبائلی روایات رائج ہیں ان کے تحت بعض چیزوں کا صحافیوں کو خود خیال کر کے چلنا پڑتا ہے۔